پاکستان کی وفاقی کابینہ نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی ہے جس کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اوسط ایک روپے بہتر پیسے اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ ’’بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اثر عام آدمی کے بجائے مراعات یافتہ طبقے پر ہو گا‘‘۔
جمعرات کو اسلام آباد میں کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر خزانہ اسد عمر نے پریس کانفرنس کرتے ہوتے کہا کہ ایک سال میں توانائی کے شعبے کا خسارہ ساڑھے پانچ سو ارب روپے ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’گو کہ اس خسارے کو حکومت برداشت کرتی ہے۔ لیکن اس سے مہنگائی بڑھتی ہے اور اس کا اثر بھی عوام پر ہی پڑتا ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ بجلی کی قیمت کے تعین کرنے والے ادارے، ’نیپرا‘ نے بجلی کی قیمت میں تین روپے بیاسی پیسے اضافے کی تجویز دی تھی۔ لیکن، حکومت نے کم سے کم اضافے کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں مسائل حل کرنے کے لیے سخت فیصلے کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے بجلی کی قیمت میں دس سے پندرہ فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ لیکن، ماہانہ تین سو یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت نہیں بڑھائی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ ستر فیصد گھریلو صارفین کے بجلی کا ماہانہ بل تین سو یونٹس سے کم ہے، جبکہ تین سو سے سات سو یونٹس استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی کی قیمت میں دس فیصد اور اس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
حکومت نے چھوٹے صنعتی صارفین یعنی پانچ کے وی ماہانہ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا ہے۔
اسد عمر نے بتایا کہ زرعی ٹیوب ویل کے لیے بحلی کی فی یونٹ قیمت دس روپے فی یونٹ سے کم کر کے پانچ روپے پنتیس پیسے کر دی گئی ہے۔ جبکہ ہسپتالوں اور اسکولوں کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ مسائل بہت ہیں۔ لیکن، حکومت کی کوشش ہے کہ عام آدمی پر مشکل فیصلوں کا اثر کم سے کم پڑے۔
پاکستان میں توانائی کے شعبے میں بجلی کی چوری، ترسیل کے پرانے اور بوسیدہ نظام کی وجہ سے بھی اربوں روپے کا خسارہ ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کا کہنا ہے کہ دو سو پچاس سے دو سو اسی ارب روپے کی سالانہ بجلی چوری ہوتی ہے۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ بجلی کی چوری روکنے کے لیے پہلے مرحلے میں پنجاب میں مقامی انتظامیہ کے تعاون سے بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف کریک ڈؤان کیا جائے گا اور اس کے بعد دیگر صوبوں میں بھی مہم چلائی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’کنڈا سسٹم‘ کے خلاف مہم سے ایک سو چالیس ارب روپے کا خسارہ کم ہو گا۔
پاکستان میں حکومت کا کہنا ہے کہ ماضی میں بجلی کی پیداوار بڑھانے پر زیادہ زور دیا گیا۔ لیکن ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ نہ دی گئی، اور بجلی کے شعبے میں اصلاحات سے ہی اس شعبے کا خسارہ کم کیا جا سکے گا۔