پاکستان میں سیاسی ہلچل کا سلسلہ جاری ہے اور وزیرخزانہ اسد عمر کے بعد کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی وزارت تبدیل کرکے انہیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا گیا ہے، جبکہ اسد عمر کی جگہ عبدالحفیظ شیخ کو وزارت خزانہ کا قلم دان دے دیا گیا ہے۔
ان تبدیلیوں کا اعلان وزیر اعظم آفس کی طرف سے رات گئے کیا گیا جن کی وزیر اعظم عمران خان نے منظوری دیدی ہے۔
حفیظ شیخ کو خزانہ کی وزارت دی گئی ہے، جبکہ اعظم سواتی کی کابینہ میں واپسی ہوئی جنہیں وزیر پارلیمانی امور مقرر کر دیا گیا ہے۔
وفاقی کابینہ میں تین نئے معاون خصوصی شامل کیے گئے ہیں جن میں فواد چوہدری کی جگہ فردوس عاشق اعوان اطلاعات و نشریات کی معاون مقرر کی گئی ہیں۔
وزیر برائے قومی صحت عامر کیانی کی وفاقی کابینہ سے چھٹی کرا دی گئی ہے اور ان کی جگہ ڈاکٹر ظفر اللہ کو معاون خصوصی برائے قومی صحت بنا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انرجی ٹاسک فورس کے سربراہ ندیم بابر کو پٹرولیم ڈویژن پر معاون خصوصی بنا دیا گیا، جبکہ وزیر پیٹرولیم غلام سرور کو وفاقی وزیر ہوا بازی کا قلمدان سونپا گیا ہے۔
موجودہ حکومت کی وفاقی کابینہ میں پہلی مرتبہ وزیر داخلہ بھی مقرر کیا گیا ہے اور بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر داخلہ کا منصب دیا گیا ہے، جبکہ وزیر مملکت شہریار آفریدی کو وزیر برائے سیفران مقرر کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے نجکاری محمد میاں سومرو سے ایوی ایشن ڈویژن کا اضافی قلمدان واپس لے لیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور کو بھی وزارت سے فارغ کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل آنے والی اطلاع کے مطابق، پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسد عمر نے اپنے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ معیشت کی صورتِ حال اس وقت بھی اچھی نہیں ہے۔
اسد عمر نے وزارت چھوڑنے کا اعلان جمعرات کو ٹوئٹر پر کیا۔ اپنے ٹوئٹ میں اسد عمر نے کہا ہے کہ کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے سلسلے میں وزیرِ اعظم نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ وزارتِ خزانہ کے بجائے وزارتِ توانائی کا قلم دان سنبھال لیں۔
لیکن اسد عمر کے بقول انہوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ انہیں کابینہ میں مزید کوئی ذمہ داری نہ دی جائے۔
بعد ازاں اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ معیشت کے حالات اس وقت بھی اچھے نہیں اور اس کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ مشکل ہو گا اور آئندہ وزیرِ خزانہ کے لیے بھی حالات اچھے نہیں ہوں گے۔
کسی کے دباؤ پر استعفیٰ دینے سے متعلق ایک سوال پر اسد عمر نے وضاحت کی کہ انہیں کسی سازش یا دباؤ کا علم نہیں بلکہ ان سے عمران خان نے گزشتہ شب پہلی بار وزارت میں تبدیلی کی بات کی تھی جس پر انہوں نے کابینہ کا حصہ بننے سے ہی معذرت کر لی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت چھوڑنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ عمران خان ہی نیا پاکستان بنائیں گے۔
واضح رہے کہ ملک کی خراب معاشی صورتِ حال پر حکومت اور خصوصاً وزیرِ خزانہ اسد عمر گزشتہ کئی ہفتوں سے تنقید کی زد میں تھے اور اسد عمر کی وزارت سے رخصتی کی افواہیں گرم تھیں۔
وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے رواں ہفتے ہی اسد عمر سمیت کابینہ میں کسی قسم کی تبدیلیوں کی اطلاعات کی تردید کی تھی۔ لیکن ساتھ ہی وزیرِ اطلاعات نے یہ کہا تھا کہ کابینہ میں تبدیلی وزیرِ اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔
'آئی ایم ایف سے معاملات طے'
اسد عمر کی جانب سے وزارت چھوڑنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کی حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان قرض کے حصول کے لیے معاملات طے پا گئے ہیں۔
اسد عمر نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
اپنے اس دورے میں ہی اسد عمر نے کہا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرض کا معاہدہ تقریباً طے پا گیا ہے۔
جمعرات کو پریس کانفرنس کے دوران بھی اسد عمر نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر شرائط پر معاہدہ طے پایا ہے جس سے ان کے بقول معیشت کو سہارا ملے گا۔
کارپوریٹ سیکٹر کا تجربہ رکھنے والے اسد عمر تحریکِ انصاف میں عمران خان کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں جو 2012ء میں تحریکِ انصاف کے عروج کے بالکل آغاز پر پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔
ان کی پارٹی میں شمولیت کے بعد عمران خان نے انہیں بارہا مستقبل کا وزیرِ خزانہ قرار دیا تھا۔ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بننے والی حکومت میں عمران خان نے اسد عمر کو خزانہ کا قلم دان سونپا تھا لیکن ان کی کارکردگی ابتدائی چند ماہ کے بعد سے ہی تنقید کی زد میں تھی۔
'استعفیٰ اسد عمر کے بجائے عمران خان دیں'
حزبِ اختلاف کی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اسد عمر کے استعفے کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ’’حکومت کو آٹھ ماہ بعد احساس ہوا ہے کہ اس کی معاشی پالیسیاں غلط ہیں‘‘۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ’’حکومت کی اقتصادی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں جس کی ذمہ داری براہِ راست عمران خان پر عائد ہوتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘اس لیے استعفیٰ بھی اسد عمر کے بجائے عمران خان کو دینا چاہیے‘‘۔