پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغانستان حکومت اگر امن عمل کی بحالی میں دلچسپی رکھتی ہے تو پاکستان اس سلسلے میں اپنی کوششوں کو بحال کر سکتا ہے۔
سرتاج عزیز جمعہ کو کابل پہنچے جہاں اُنھوں نے علاقائی اقتصادی تعاون کانفرنس برائے افغانستان میں شرکت کی اور بعد میں افغان صدر اشرف غنی، افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے گفتگو میں کہا کہ بالآخر افغانستان ہی کو اپنی ترجحیات اور آئندہ کے راستے کا تعین کرنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ افغانستان جو بھی فیصلہ کرے گا ہم اُس میں مدد کریں گے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ مذاکرات اور مصالحت کے بغیر افغانستان میں دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا۔
افغانستان کی قیادت سے ملاقاتوں میں سرتاج عزیز نے دوطرفہ تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے کے علاوہ افغان میڈیا میں جاری پاکستان مخالف مہم ختم کرنے پر بات چیت کی۔
افغانستان میں تعینات پاکستانی سفارتی عملے کی سلامتی سے متعلق خدشات سے بھی سرتاج عزیز نے افغان قیادت کو آگاہ کیا۔
پاکستان کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ افغانستان کی حکومت پاکستانی سفارتی عملے اور وہاں پاکستان کے سفارت و قونصل خانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
گزشتہ سال ستمبر میں صدر اشرف غنی کی حکومت کے قیام کے بعد رواں سال جولائی تک پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں نمایاں بہتری دیکھی گئی۔
باہمی اعتماد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جولائی کے پہلے ہفتے میں پاکستان کی میزبانی میں اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات ہوئی تھی جس میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی شریک تھے۔
اس ملاقات کے بعد افغانستان کی طرف سے پاکستان کے کردار کو بھرپور طریقے سے سراہا گیا۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا دوسرا دور بھی اسلام آباد میں ہونا تھا لیکن عین وقت پر طالبان کے امیر ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد یہ ملاقات موخر کر دی گئی۔
ملاعمر کے انتقال کے بعد طالبان نے ملا اختر منصور کو اپنا نیا امیر مقرر کیا لیکن قیادت کے مسئلے پر افغان طالبان کے مختلف دھڑوں میں اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئیں۔
اس دوران کابل میں اگست کے اوائل میں پے در پے مہلک حملے ہوئے اور اُن کے بعد افغانستان کی طرف سے پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
پاکستان کی طرف سے افغانستان کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کی بھرپور مذمت کی گئی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ سرتاج عزیز کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں کمی میں مدد ملے سکے گی۔