پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اس بات کی فی الوقت تصدیق نہیں کیا جا سکتی ہے کہ بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں مارا جانے والا شخص افغان طالبان کا امیر ملا اختر منصور تھا اور ان کے بقول مارے جانے والے شخص کی تصدیق کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا۔
منگل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کی مفصل تحقیقات کی جا رہی ہیں لیکن تاحال ملا منصور کی شناخت کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
گزشتہ ہفتے کو پاک افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقے احمد وال میں امریکی ڈرون حملے سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا جس پر سوار دو افراد مارے گئے تھے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس میں طالبان کے سربراہ اختر منصور کو نشانہ بنایا گیا اور وہ مارے جا چکے ہیں۔
تاہم پاکستانی وزیر نے اب تک کی تحقیقات سے صحافیوں کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مرنے والوں میں سے ایک کی شناخت محمد اعظم کے نام سے ہوئی جو گاڑی کا ڈرائیور تھا اور اس کی لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک شخص نے خود کو ملا منصور کا رشتہ دار بتاتے ہوئے دوسری لاش کو افغانستان لے جانے کے لیے حکومت پاکستان سے رابطہ کیا ہے لیکن ان کے بقول اس ضمن میں جینیاتی تجزیہ "ڈی این اے ٹیسٹ" کیے جانے کے بعد ہی وثوق سے ہی کچھ کہا جا سکے گا۔
ڈرون حملے کے بعد ملنے والا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جو کہ ولی محمد نامی شخص کا ہے، وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ اس کی بھی تحقیقات جاری ہیں کہ آیا اس پر موجود تصویر ملا منصور کی ہے یا نہیں۔
چودھری نثار علی خان نے پاکستان کے اس موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملہ ان کے ملک کی خودمختاری و سالمیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس طرح کے واقعات سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی لندن سے واپسی پر پاکستان کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوگا جس میں اس ضمن میں لائحہ عمل ترتیب دینے پر مشاورت ہوگی۔
امریکہ نے پاکستان کی طرف سے ڈرون حملے پر کیے جانے والے احتجاج کے ردعمل میں کہا تھا کہ وہ اس کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے لیکن اس کے بقول امریکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے عناصر کو نشانہ بنایا جائے گا۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ملا منصور افغان امن عمل کے مخالف اور افغانستان میں شہریوں، سکیورٹی فورسز، امریکی و بین الاقوامی افواج کے لیے خطرات کی منصوبہ بندی میں مبینہ طور پر ملوث رہے۔
تاہم پاکستانی وزیر داخلہ کا استدلال تھا کہ گزشتہ جولائی میں مری میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین پاکستان کی میزبانی میں پہلے براہ راست مذاکرات میں ملا منصور اس کے حامی تھے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ جولائی کے اواخر میں طے شدہ مذاکرات کے دوسرے دور میں اہم پیش رفت بھی ہونے والی تھی لیکن اس سے محض چند روز قبل طالبان کے بانی امیر ملا محمد عمر کی وفات کی خبر کو منظر عام پر لا کر مذاکراتی عمل کو ان کے بقول سبوتاژ کیا گیا۔
"کابل کو تنازع سے پاک علاقہ قرار دیا جانا تھا اور اس پر طالبان متفق بھی ہو گئے تھے، یہ پیش رفت ہو رہی تھی لیکن اسے سبوتاژ کر دیا گیا، پاکستان نے تو (سبوتاژ) نہیں کیا، پاکستان نے تو بڑی محنت کی۔"
افغانستان میں امن عمل گزشتہ جولائی میں معطل ہو گیا تھا جو کہ تاحال بحال نہیں ہو سکا اور اس میں پیش رفت کے لیے بنائے گئے چارملکی گروپ کی کوششیں بھی بارآور ثابت نہیں ہوسکی ہیں۔
ایسے میں ملا منصور کی ہلاکت کو تجزیہ کار افغان امن عمل کی بحالی کے لیے مضر قرار دے رہے ہیں۔
پاکستانی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ چار فریقی گروپ کے گزشتہ ہفتہ ہونے والے اجلاس میں بھی اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ مذاکرات ہی افغانستان میں پائیدار امن کا واحد راستہ ہیں اور ان کے بقول فوجی کارروائیاں اس مسئلے کا حل نہیں ہیں۔