مذہبی و سیاسی جماعت 'تحریکِ لبیک یارسول اللہ' کی قیادت میں نکالی گئی ریلی کے شرکا کا جمعے کو تیسرے روز بھی دھرنا بدستور جاری ہے، جس سے خاص طور پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اس صورت حال کا نیشنل کمیشن فار ہومین رائٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے جواب طلب کیا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق سرکاری ادارے نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس ’این سی ایچ آر‘ کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے لیکن اُن کے بقول یہ ایسے منظم انداز میں ہونا چاہیئے کہ لوگوں کے لیے مشکلات پیدا نا ہوں۔
’’ چیف سیکرٹری پنجاب اور چیف کمشنر اسلام آباد سے ہم نے پوچھا کہ ٹریفک کو کیوں نہیں ریگولیٹ کیا گیا اور کیوں اسے منظم نہیں بنایا گیا، جب کہ (قریب ہی) پریڈ گراؤنڈ بھی ہے اور طریقہ کار بھی ہیں ایک سڑک کھلی بھی رکھی جا سکتی ہے مظاہرین کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔‘‘
راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان مرکزی شاہراہ پر واقع ’فیض آباد‘ پل کو مظاہرین نے چاروں طرف سے بند کر رکھا ہے جس سے طالب علموں، روزگار کے لیے جانے والے افراد حتی کے مریضوں کو اسپتالوں تک پہنچانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
’’یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے یہ کسی ملک میں اس طرح ہوتا نہیں ہے کہ دارالحکومت کی ساری زندگی مفلوج ہو جائے کیونکہ چند مظاہرین احتجاج کر رہے ہیں ان کے لیے ان کو بیٹھ کر سر جوڑ کر یہ دیکھنا ہو گا کہ جب لوگ احتجاج کریں کیا جگہ ہونی چاہیئے اور پھر احتجاج سائیڈ پر کریں باقی سڑک کھلی ہونی چاہیئے اور لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے ان سے بات چیت بھی کرنی چاہیئے یہ نہیں ہو سکتا کہ سڑک پر لیٹ کر باقی لوگوں کو پابند کر دیں اس کی نا اسلام اجازت دیتا ہے نا مہذب معاشرے کے کوئی قوانین اجازت دیتے ہیں یہ چیزیں بالکل غلط ہیں۔‘‘
جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی صورت حال ہمیں بے حد نقصان پہنچا رہی ہے کیوں کہ لوگ بے یقینی کا شکار ہیں کہ وہ اپنے دفاتر اور کام کرنے والی جگہوں پر پہنچ سکیں گے یا نہیں۔
مذہبی جماعت کے کارکنوں کی طرف سے احتجاجی دھرنے کے سبب معمولات زندگی متاثر ہونے پر سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نا صرف احتجاج کرنے والوں پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ اس صورت سے مناسب انداز میں نا نمٹنے پر حکومت کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔
تاہم وزیر داخلہ احسن اقبال نے جمعرات کو اس بارے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مختصر گفتگو میں کہا کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے اس معاملے کو حل کرنا چاہتی ہے۔
’’اگر آپ طاقت کا استعمال کریں تو تشدد کا خطرہ ہوتا ہے، جانی نقصان کا خطرہ ہوتا ہے تو ہماری کوشش ہے کہ کسی قسم کا جانی نقصان نا ہو کوئی تشدد نا ہو لیکن ان لوگوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ یہ لوگوں کی زندگی میں خلل نا لائیں لوگوں کو ہراساں نا کریں تنگ نا کریں ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان کو بات چیت سے آمادہ کر رہے ہیں اگر انھوں نے مان لیا تو ٹھیک ہے ورنہ پھر حکومت اور انتظامیہ جو بھی مناسب کارروائی ہے وہ کرے گی۔‘‘
مظاہرین نے جس مقام پر دھرنا دے رکھا ہے، اس کے علاوہ بھی وفاقی دارالحکومت کے مختلف مقامات خاص طور پر پارلیمنٹ ہاؤس اور سفارت خانون پر مشتمل ڈپلومیٹک انکلیو کی طرف جانے والے راستوں کو بھی انتظامیہ نے کنٹینر لگا کر بند کر رکھا ہے۔
احتجاجی ریلی میں شریک رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے میں کی گئی مبینہ تبدیلی کے ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف کارروائی کرے اور سب سے پہلے وزیر قانون زاہد حامد کو منصب سے الگ کیا جائے تو پھر بات چیت کی جائے گی۔
حلف نامے میں تبدیلی کی نشاندہی کے فوراً بعد ہی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر ایک ترمیم کر کے پرانے حلف نامے کو بحال کر دیا تھا اور یہ بھی واضح کیا تھا کہ جس مبینہ تبدیلی کی نشاندہی کی گئی تھی وہ ایک ’’کلیریکل‘‘ غلطی تھی۔