اسلام آباد —
قومی اسمبلی کی گزشتہ شب تحلیل کے بعد ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی اور سیاست دانوں کے لب و لہجے میں اتار چڑھاؤ دیکھا جارہا ہے۔ میاں نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دو مرکزی رہنماؤں نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے اتوار کو ملاقات کی جس میں جمعیت کے نگران وزیراعظم سے متعلق تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی طرف سے حزب اختلاف کے تجویز کردہ نگران وزیراعظم کے دو ناموں پر تحفظات کے بعد، مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سابق پارلیمان میں قائد حزب اختلاف نے مجوزہ ناموں میں سے جسٹس شاکر اللہ جان کا نام ان سے مشاورت کے بغیر خارج کیا۔
قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے پہلے عبوری وزیر اعظم کے لیے سابق جسٹس ناصر اسلم زاہد، بزرگ سیاستدان رسول بخش پلیجو اور سابق جسٹس شاکراللہ جان کے نام تجویز کیے تھے۔ پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادی پاکستان مسلم لیگ (ق) اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ، سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین اور سابق جج میر ہزار کھوسو کے نام تجویز کیے گئے ہیں۔
جمعیت کے مرکزی رہنما سینیٹر مولانا غفور حیدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ دونوں جماعتوں میں بظاہر باہمی اعتماد کی کمی موجود ہے۔
’’جب ہم ہر مرحلے پر مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دے رہے تھے تو انہیں بھی چاہیئے تھا کہ اگر ان کے لیے یا کسی اور کے لیے کوئی مشکل ہے شاکراللہ جان (کا نام تجویز کرنا) تو ہمیں وجوہات بتا دیتے۔ شاکر اللہ جان یا کسی اور نے تو بننا ہے۔‘‘
مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار اور راجا طفرالحق نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ جسٹس شاکراللہ جان کا نام غلط فہمی کی وجہ سے مجوزہ ناموں کی فہرست سے نکالا گیا تھا اور پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد اس حوالے سے کسی فیصلے کا اعلان کیا جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام (ف) میاں نواز شریف کی جماعت کے انتخابی اتحاد میں شامل ہیں۔
مولانا غفور حیدری کا کہنا تھا کہ سیاست دان جلد سے جلد عبوری وزیراعظم کے نام پر فیصلہ کریں تاکہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو نہ بھیجا جائے۔
’’پی پی پی اور پی ایم ایل این دو بڑی جماعتیں ہیں اور دیگر ملک کی مقتدر جماعتیں فیصلہ نہ کر پائیں تو عوام سوچے گی کہ انھوں نے اس پر کچھ نہ کیا تو دوسرے معاملات پر کیا ہوگا۔‘‘
پاکستان کے آئین کے مطابق قائد ایوان اور حزب اختلاف کا نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نا ہونے پر یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا اور وہاں بھی عدم اتفاق کی صورت میں الیکشن کمیشن اس حوالے سے فیصلہ کرے گا۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اُمید ظاہر کی کہ نگران وزیراعظم کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی ہی میں حل ہو جائے گا۔ ’’ہم کوشش کریں گے کہ معاملہ کمیٹی میں حل ہو جائے۔‘‘
پی پی پی اور اتحادیوں کی طرف سے نگران وزیراعظم سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے لیے چوہدری شجاعت حسین، سابق وفاقی وزراء سید خورشید شاہ، غلام احمد بلور اور فاروق نائیک کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے جبکہ سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے عندیہ دیا ہے کہ ان کے اتحاد کےاعلان کردہ نگران وزیر اعظم کے لیے مجوزہ ناموں میں تبدیلی بھی ممکن ہے۔
گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی طرف سے حزب اختلاف کے تجویز کردہ نگران وزیراعظم کے دو ناموں پر تحفظات کے بعد، مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سابق پارلیمان میں قائد حزب اختلاف نے مجوزہ ناموں میں سے جسٹس شاکر اللہ جان کا نام ان سے مشاورت کے بغیر خارج کیا۔
قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے پہلے عبوری وزیر اعظم کے لیے سابق جسٹس ناصر اسلم زاہد، بزرگ سیاستدان رسول بخش پلیجو اور سابق جسٹس شاکراللہ جان کے نام تجویز کیے تھے۔ پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادی پاکستان مسلم لیگ (ق) اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ، سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین اور سابق جج میر ہزار کھوسو کے نام تجویز کیے گئے ہیں۔
جمعیت کے مرکزی رہنما سینیٹر مولانا غفور حیدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ دونوں جماعتوں میں بظاہر باہمی اعتماد کی کمی موجود ہے۔
’’جب ہم ہر مرحلے پر مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دے رہے تھے تو انہیں بھی چاہیئے تھا کہ اگر ان کے لیے یا کسی اور کے لیے کوئی مشکل ہے شاکراللہ جان (کا نام تجویز کرنا) تو ہمیں وجوہات بتا دیتے۔ شاکر اللہ جان یا کسی اور نے تو بننا ہے۔‘‘
مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار اور راجا طفرالحق نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ جسٹس شاکراللہ جان کا نام غلط فہمی کی وجہ سے مجوزہ ناموں کی فہرست سے نکالا گیا تھا اور پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد اس حوالے سے کسی فیصلے کا اعلان کیا جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام (ف) میاں نواز شریف کی جماعت کے انتخابی اتحاد میں شامل ہیں۔
مولانا غفور حیدری کا کہنا تھا کہ سیاست دان جلد سے جلد عبوری وزیراعظم کے نام پر فیصلہ کریں تاکہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو نہ بھیجا جائے۔
’’پی پی پی اور پی ایم ایل این دو بڑی جماعتیں ہیں اور دیگر ملک کی مقتدر جماعتیں فیصلہ نہ کر پائیں تو عوام سوچے گی کہ انھوں نے اس پر کچھ نہ کیا تو دوسرے معاملات پر کیا ہوگا۔‘‘
پاکستان کے آئین کے مطابق قائد ایوان اور حزب اختلاف کا نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نا ہونے پر یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا اور وہاں بھی عدم اتفاق کی صورت میں الیکشن کمیشن اس حوالے سے فیصلہ کرے گا۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اُمید ظاہر کی کہ نگران وزیراعظم کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی ہی میں حل ہو جائے گا۔ ’’ہم کوشش کریں گے کہ معاملہ کمیٹی میں حل ہو جائے۔‘‘
پی پی پی اور اتحادیوں کی طرف سے نگران وزیراعظم سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے لیے چوہدری شجاعت حسین، سابق وفاقی وزراء سید خورشید شاہ، غلام احمد بلور اور فاروق نائیک کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے جبکہ سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے عندیہ دیا ہے کہ ان کے اتحاد کےاعلان کردہ نگران وزیر اعظم کے لیے مجوزہ ناموں میں تبدیلی بھی ممکن ہے۔