اسلام آباد —
نگران وزیر اعظم کی تقرری کا معاملہ اب تک وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان میں طے نہیں پایا اور ملک کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ایک دوسرے کے تجویز کردہ ناموں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ جس سے بظاہر یہ معاملہ پارلیمارنی کمیٹی کے سپرد ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
میاں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے مرکزی ترجمان مشاہد اللہ خان نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی جماعت نے پارلیمانی کمیٹی کے چار اراکین کے ناموں کو حتمی شکل دے دی ہے اور منگل کو چوہدری نثار علی خان ان کا اعلان کریں گے۔
انہوں نے اراکین کے نام بتانے سے معذرت کی تاہم مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ ان اراکین میں متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین شامل نہیں ہوں گے۔
’’ایم کیو ایم کو تو ہم اپوزیشن مانتے ہی نہیں اس لیے ان کی شمولیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘‘
مسلم لیگ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے تحفظات کے باوجود سابق جج شاکر اللہ جان کو نگران وزیراعظم کے ناموں کی تجویز کردہ فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سابق جج کے بارے میں چند ’’معلومات‘‘ کی بنا پر ان کا نام فہرست سے نکالا گیا۔
’’اگر انہوں (مولانا فضل الرحمٰن) نے پہلے کہہ دیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) جو نام تجویز کرے گی انہیں قبول ہو گا تو اب شاکر اللہ جان کے لیے اچانک محبت کہاں سے جاگ گئی۔‘‘
مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں ان کے تجویز کردہ سابق جج ناصر اسلم زاہد سے بہتر امیدوار سامنے لائیں تو انہیں قابل قبول ہو گا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے مجوزہ ناموں میں تبدیلی کا عندیہ تو دیا گیا مگر اب تک ان کی طرف سے کوئی نئے نام نہیں آئے۔
کراچی کی با اثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنما حیدر عباس رضوی کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے پہلے ہی اسپیکر کی ہدایت پر ان کے قانون ساز حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ گئے تھے اس لیے ایم کیو ایم کی پارلیمانی کمیٹی میں نمائندگی لازمی ہے۔
’’اگر وہ (مسلم لیگ نواز) کسی جماعت کو حزب اختلاف کی جماعت تسلیم نہیں کرتے تو یہ آمرانہ طرز عمل ہے۔ ہم کسی جماعت یا فرد واحد کے غلام نہیں ہیں نا ہمیں اپوزیشن ہونے کے لیے ان کا سرٹیفیکیٹ چاہیئے۔ اگر ہمیں اس عمل میں شریک نا کیا گیا تو یہ عمل مشکوک ہو گا۔‘‘
ملک کے آئین کے تحت پارلیمانی کمیٹی میں نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نا ہونے کی صورت میں یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا۔ تاہم سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس امید کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ نگران وزیراعظم کی تقرری کا معاملہ الیکشن کمیشن بھیجنے سے پہلے سیاستدان طے کر لیں گے۔
میاں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے مرکزی ترجمان مشاہد اللہ خان نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی جماعت نے پارلیمانی کمیٹی کے چار اراکین کے ناموں کو حتمی شکل دے دی ہے اور منگل کو چوہدری نثار علی خان ان کا اعلان کریں گے۔
انہوں نے اراکین کے نام بتانے سے معذرت کی تاہم مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ ان اراکین میں متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین شامل نہیں ہوں گے۔
’’ایم کیو ایم کو تو ہم اپوزیشن مانتے ہی نہیں اس لیے ان کی شمولیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘‘
مسلم لیگ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے تحفظات کے باوجود سابق جج شاکر اللہ جان کو نگران وزیراعظم کے ناموں کی تجویز کردہ فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سابق جج کے بارے میں چند ’’معلومات‘‘ کی بنا پر ان کا نام فہرست سے نکالا گیا۔
’’اگر انہوں (مولانا فضل الرحمٰن) نے پہلے کہہ دیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) جو نام تجویز کرے گی انہیں قبول ہو گا تو اب شاکر اللہ جان کے لیے اچانک محبت کہاں سے جاگ گئی۔‘‘
مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں ان کے تجویز کردہ سابق جج ناصر اسلم زاہد سے بہتر امیدوار سامنے لائیں تو انہیں قابل قبول ہو گا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے مجوزہ ناموں میں تبدیلی کا عندیہ تو دیا گیا مگر اب تک ان کی طرف سے کوئی نئے نام نہیں آئے۔
کراچی کی با اثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنما حیدر عباس رضوی کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے پہلے ہی اسپیکر کی ہدایت پر ان کے قانون ساز حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ گئے تھے اس لیے ایم کیو ایم کی پارلیمانی کمیٹی میں نمائندگی لازمی ہے۔
’’اگر وہ (مسلم لیگ نواز) کسی جماعت کو حزب اختلاف کی جماعت تسلیم نہیں کرتے تو یہ آمرانہ طرز عمل ہے۔ ہم کسی جماعت یا فرد واحد کے غلام نہیں ہیں نا ہمیں اپوزیشن ہونے کے لیے ان کا سرٹیفیکیٹ چاہیئے۔ اگر ہمیں اس عمل میں شریک نا کیا گیا تو یہ عمل مشکوک ہو گا۔‘‘
ملک کے آئین کے تحت پارلیمانی کمیٹی میں نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نا ہونے کی صورت میں یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا۔ تاہم سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس امید کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ نگران وزیراعظم کی تقرری کا معاملہ الیکشن کمیشن بھیجنے سے پہلے سیاستدان طے کر لیں گے۔