پاکستا ن کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نواز نے دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد نگراں وزیر اعظم کے لئے چھ نام پیش کر دیے ہیں ۔
تجویز کئے گئے ناموں میں معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر ، پختونخواہ عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد، جسٹس ریٹائرڈ میاں اجمل، جسٹس ریٹائرڈ شاکر اللہ جان اور عطااللہ مینگل شامل ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے نگراں وزیر اعظم کا نام تجویز کرنے کے لئے 4 روز کی مہلت مانگی ہے، جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں حتمی طور پرغور کے بعد ان چھ میں سے دو نام حکومت کو پیش کردیے جائیں گے۔
موجودہ حکومت کی مدت 16 مارچ کو ختم ہورہی ہے ۔ 20ویں آ ئینی ترمیم کے تحت انتخابات سے قبل نگراں سیٹ اپ کے قیام کے لئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان باہمی اتفاق لازمی ہے۔
جمعرات کو چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابرہیم کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ قومی اور تمام صوبائی اسمبلیاں 15 فروری تک تحلیل کر دی جائیں، تا کہ الیکشن کمیشن کو آئندہ عام انتخابات کی تیاری کے لئے وقت میسر آجائے اور تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن پر لگائے گئے اعتراضات کو بھی دور کیا جاسکے۔
تجویز کئے گئے ناموں میں معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر ، پختونخواہ عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد، جسٹس ریٹائرڈ میاں اجمل، جسٹس ریٹائرڈ شاکر اللہ جان اور عطااللہ مینگل شامل ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے نگراں وزیر اعظم کا نام تجویز کرنے کے لئے 4 روز کی مہلت مانگی ہے، جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں حتمی طور پرغور کے بعد ان چھ میں سے دو نام حکومت کو پیش کردیے جائیں گے۔
موجودہ حکومت کی مدت 16 مارچ کو ختم ہورہی ہے ۔ 20ویں آ ئینی ترمیم کے تحت انتخابات سے قبل نگراں سیٹ اپ کے قیام کے لئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان باہمی اتفاق لازمی ہے۔
جمعرات کو چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابرہیم کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ قومی اور تمام صوبائی اسمبلیاں 15 فروری تک تحلیل کر دی جائیں، تا کہ الیکشن کمیشن کو آئندہ عام انتخابات کی تیاری کے لئے وقت میسر آجائے اور تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن پر لگائے گئے اعتراضات کو بھی دور کیا جاسکے۔