پاکستان میں پولیس نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹس یا ’سوشل میڈیا‘ پر مبینہ طور پر توہین آمیز مواد شائع کرنے والے بعض نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
یہ مقدمہ وفاقی دارالحکومت کے رمنا تھانہ کے انچارج انسپکٹر ارشاد علی ابڑو کی درخواست پر درج کیا گیا ہے۔
انسپکٹر ارشاد ابڑو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بعض بلاگر کی طرف سے سماجی میڈیا پر بنائے گئے صفحات پر مبینہ طور پر توہین آمیز مواد پوسٹ کیا گیا جس سے اُن کے بقول مسلمانوں کے مذہبی احساسات مجروح ہوئے ہیں۔
پولیس کی طرف سے تاحال ان افراد کی نشاندہی نہیں کی گئی جو مبینہ طور پر یہ صفحات چلا رہے تھا، تاہم ارشاد ابڑو نے کہا کہ پولیس نے مشتبہ افراد کی نشاندہی کے لیے تفتیش شروع کر دی ہے۔
’’جس جس شخص نے مبینہ طور پر یہ صفحات بنائے ہیں یا ان پر کوئی تبصرہ کیا ہے یا اس مواد کی تائید کی ہے انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔‘‘
پولیس کی رپورٹ میں ان تین فیس بک صفحات کا ذکر کیا گیا ہے جن کی بازگشت اس وقت سنائی دی گئی جب رواں سال جنوری کے اوائل میں سماجی میڈیا پر سرگرم پانچ کارکن لاپتہ ہو گئے تھے جو اب بازیاب ہو چکے ہیں۔
اس وقت بعض افراد کی طرف سے ان بلاگر پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے تھے تاہم وہ ان الزامات کو مسترد کر چکے ہیں۔
حقوق انسانی کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ"اس (معاملے) کو نہایت غیر مناسب طریقے سے ہینڈل کیا جا رہا ہے۔ "
واضح رہے کہ قبل ازیں سلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت صدیقی نے سماجی میڈیا پر توہین آمیز کی موجودگی کے بارے میں دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کو ایسے مواد تک رسائی روکنے کی ہدایت کی تھی۔
جب کہ عدالت نے وزارت داخلہ کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ ایسے افراد جو کہ سوشل میڈیا پر مذہب سے متعلق توہین آمیز مواد شائع کرنے میں مبینہ طور پر ملوث ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے۔