رسائی کے لنکس

ایک کروڑ سے زائد پاکستانی بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں


پشاور کی گلیوں میں تازہ پھول بیچنے والا ایک بچہ، ایسے بچے پاکستان کے اکثر شہروں میں موجود ہیں۔
پشاور کی گلیوں میں تازہ پھول بیچنے والا ایک بچہ، ایسے بچے پاکستان کے اکثر شہروں میں موجود ہیں۔

پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور ان میں سے بہت سے بچے ہوٹلوں، ورکشاپس، پٹرول پمپس اور گھروں میں کام کرتے نطر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تازہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں چائلڈ رائٹس موومنٹ نیٹ ورک کے پروگرام منیجرسجاد چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تعداد کیا ہے، کیوں کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر 1996 کے بعد سے کوئی سروے نہیں ہوا۔

سن 1996 کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33 لاکھ ایسے بچے ہیں جو مشقت یا مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ سروے بہت پرانا ہے، اس کی بنیاد پر تازہ تعداد کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی اور صرف دوسرے متعلقہ اعداد و شمار سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ اعداد و شمار موجود ہیں کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے تو اس بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تو اسکول جانے کی عمر کے بچے ہوں گے، اور اس طرح سے اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے جو عمومی طور پر اپنی غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔

ٹائروں پر پنکچر لگانے والے بچے پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔
ٹائروں پر پنکچر لگانے والے بچے پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان میں بچوں سے مشقت کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے سجاد چیمہ نے کہا کہ یہ بچے مختلف قسم کی محنت و مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے لیکن ان میں سے سب سے تکلیف دہ مشقت کا شکار وہ بچے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں اور جنہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جدید دور کی غلامی اور بد ترین قسم کی چائلڈ لیبر قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا نیٹ ورک چونکہ اس سلسلے میں کام کرتا ہے اس لیے اسے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بہت سے بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور کئی بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ جو جنسی تشدد ہو تا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔

پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف قانون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ اور بچوں کے حقوق کی ایک علمبردار خدیجہ علی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بچوں کی ملازمت کے بارے میں جو قانون تھا، 1991 کا ایک ایکٹ، وہ پورے پاکستان میں نافذ تھا جس کے مطابق آپ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کام پر یا ملازم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر اپنی اپنی قانون سازی کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بچوں سے مشقت کے موجودہ قوانین پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ خاندان بھی بچوں کو گھر میں ملازم رکھتی ہے، وہ گھروں میں کام کرتے ہیں، صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بچے سنبھالتے ہیں۔

پاکستان میں اینٹوں کے کئی بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔
پاکستان میں اینٹوں کے کئی بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قانون میں بچوں سے کام لینے کی سزا تو ایک سال تک کی ہے لیکن میں نے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بڑے مقدمات یا کوئی بڑی سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔

ا یڈووکیٹ خدیجہ علی نے طیبہ نامی بچی کے ساتھ تشدد کے جرم پر دی جانے والی حالیہ سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں بھی جو سزا دی گئی تھی وہ بچی سے ظلم یا دوسری زیادتیوں کے حوالے سے دی گئی تھی لیکن اس میں چائلڈ لیبر کی دفعہ کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ملازم بچوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہی سزا نہیں ہونی چاہیئے بلکہ بچوں سے کام کا لیا جانا ہی ایک قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔

سجاد چیمہ نے بھی چائلڈ لیبر کے لئے موجود قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک بھر میں موجود مفت اور لازمی تعلیم کے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کر لیا جائے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا، تو یہ بھی ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کے حل کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG