دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بدھ کو بچوں کی مشقت کے خلاف عالمی دن منایا گیا اور رواں برس اس کا مقصد گھروں میں کام کرنے والے بچوں کی مشکلات اور ان اس مشقت کے خاتمے کے لیے کوششوں میں تیزی لانا تھا۔
عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ کے مطابق دنیا میں تقریباً ایک کروڑ 55 لاکھ بچے گھروں میں ملازمت کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے بنیادی حقوق بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
ادارے کے پاکستان میں ایک عہدیدار ڈاکٹر سیف اللہ چودھری کا کہنا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے بچے نہ صرف استحصال اور مختلف قسم کے تشدد کا شکار ہوتے ہیں بلکہ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گھروں میں مشقت کرنے والوں میں اکثریت کم عمر بچوں خصوصاً بچیوں کی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کی خبریں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہے۔ ان کے مطابق اس کے تدارک کے لیے حکومت کے علاوہ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
’’جو لوگ بچوں کو گھروں میں ملازمت دیتے ہیں ان سے اپیل کروں گا کہ ان کی تعلیم کا بندوبست بھی کریں، اگر ملازم رکھنا ہے تو کسی ایسے کو رکھیں جس کی عمر کم ازکم 18 سال ہو، اسے اچھا معاوضہ دیں، بچے کی تعلیم کا خرچہ اٹھا لیں جو اتنا زیادہ نہیں ہوتا۔‘‘
سیف اللہ چودھری کہتے ہیں بچوں کی مشقت سے متعلق پاکستان میں رائج 1991ء کا قانون ناکافی ہے کیونکہ ان کے بقول اس میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کا ذکر نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ محنت نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں متعلقہ عہدیداروں کے ساتھ مل کر ایک نیا مسودہ قانون تیار کیا ہے۔
آئی ایل او کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ بچوں کی مشقت خصوصاً گھریلو ملازمت کے مسئلے سے نمٹنے کےلیے نئی قانون سازی کے علاوہ تمام متعلقہ فریقوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
پاکستان میں عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں حالیہ برسوں کے دوران بچوں کے حقوق کو زیادہ موثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے لیکن اب بھی اس ضمن بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ کے مطابق دنیا میں تقریباً ایک کروڑ 55 لاکھ بچے گھروں میں ملازمت کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے بنیادی حقوق بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
ادارے کے پاکستان میں ایک عہدیدار ڈاکٹر سیف اللہ چودھری کا کہنا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے بچے نہ صرف استحصال اور مختلف قسم کے تشدد کا شکار ہوتے ہیں بلکہ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گھروں میں مشقت کرنے والوں میں اکثریت کم عمر بچوں خصوصاً بچیوں کی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کی خبریں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہے۔ ان کے مطابق اس کے تدارک کے لیے حکومت کے علاوہ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
’’جو لوگ بچوں کو گھروں میں ملازمت دیتے ہیں ان سے اپیل کروں گا کہ ان کی تعلیم کا بندوبست بھی کریں، اگر ملازم رکھنا ہے تو کسی ایسے کو رکھیں جس کی عمر کم ازکم 18 سال ہو، اسے اچھا معاوضہ دیں، بچے کی تعلیم کا خرچہ اٹھا لیں جو اتنا زیادہ نہیں ہوتا۔‘‘
سیف اللہ چودھری کہتے ہیں بچوں کی مشقت سے متعلق پاکستان میں رائج 1991ء کا قانون ناکافی ہے کیونکہ ان کے بقول اس میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کا ذکر نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ محنت نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں متعلقہ عہدیداروں کے ساتھ مل کر ایک نیا مسودہ قانون تیار کیا ہے۔
آئی ایل او کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ بچوں کی مشقت خصوصاً گھریلو ملازمت کے مسئلے سے نمٹنے کےلیے نئی قانون سازی کے علاوہ تمام متعلقہ فریقوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
پاکستان میں عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں حالیہ برسوں کے دوران بچوں کے حقوق کو زیادہ موثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے لیکن اب بھی اس ضمن بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔