ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے بچوں کے حقوق پر اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کے بیس سال بعد بھی ملک میں بچوں کی حالت نہایت مایوس کن ہے اور ایک کروڑ کے لگ بھگ بچے جبری مشقت کررہے ہیں جن میں سے کئی جسمانی اور جنسی زیادتیوں کا بھی شکار ہیں۔
جبکہ سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے حالات اس قدر خراب نہیں اور حکومت کی طرف سے حقوق اطفال کے تحفظ کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں جن میں صرف ایک روز پہلے ہی کابینہ کی طرف سے بچوں کی اسمگلنگ اور ان سے جنسی زیادتی کے خلاف اقوام متحدہ کے پروٹوکول کی توثیق شامل ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں غیر سرکاری تنظیم ’سپارک‘ کے زیر اہتمام تقریب میں پیش کیے جانے والے جائزے میں تنظیم کے سربراہ ارشد محمود نے کہا کہ عالمی تنطیم کے 1989 کے کنونشن کے تحت پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دے، ان کی شکایات کے ازالے کے لیے ایک علیحدہ محتسب بنائے ، بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ کرے اور کم عمری کی شادی کے خلاف قانون بنانے سمیت کئی اقدامات کرے جو ان کے مطابق ابھی تک نہیں کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال بچوں پر تشدد کے سلسلے میں بد ترین رہا اور اس دوران گھروں میں ملازموں کے طور پر کام کرنے والے سات بچوں کو تشدد کر کے ہلاک کیا گیا جن میں چھ لڑکیاں شامل ہیں۔
ارشد محمود کا کہنا تھا کہ بچوں سے جبری مشقت ، ان کی اسمگلنگ اور جنسی استحصال کو روکنے کے لیے ملک میں کوئی موثر نظام موجود نہیں ، اسکول جانے کی عمر کے ایک کروڑ نوے لاکھ بچوں میں سے ستر لاکھ کو تعلیم میسر نہیں جبکہ ’’جوونائل جسٹس سسٹم آرڈیننس‘‘ کا موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے جیلوں میں قید بچوں کے حقوق بھی محفوظ نہیں۔
دوسری طرف نیشنل کمیشن فار چائلڈ ویلفیئر ڈویلوپمنٹ کے عہدیدار حسن منگی نے وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں اس تاثر کو مسترد کیا کہ حکومت نے بچوں کے حقوق کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔’’کل کابینہ نے جس پروٹوکول کی توثیق کی ہے اس کے تحت بچوں کی اسمگلنگ اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی روک تھام کے لیے پہلے سے زیادہ کڑے اقدامات کیے جائیں گے اور اس کی پیش رفت سے اقوام متحدہ کو آگاہ کیا جاتا رہے گا‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ گھروں ، فیکٹریوں اور دوسرے مقامات پر کام کرنے والے بچوں کو ہر طرح کے استحصال سے بچانے کے لیے ایک جامع قانون پارلیمان میں ہے جبکہ صوبائی سطح پر بھی پرائمری تک تعلیم لازمی قرار دینے کے علاوہ اسکولوں میں جسمانی سزا پر پابندی اور تجرباتی بنیادوں میں محتسب قائم کیے جانے سمیت کئی فیصلے کیے گئےہیں۔
انیس جیلانی قانون ماہر اور سپارک تنظیم کے ممبر ہیں جن کا کہنا ہے کہ غربت اور نا خواندگی کے علاوہ حکومتوں کی عدم توجہی اور عدم دلچسپی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ان کے مطابق دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بچوں سےجبری مشقت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اوران کی موجودہ تعداد کم از کم ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ ’’بچوں کے مسائل ایسے نہیں جو حل نہ ہو سکیں پاکستان کے پاس وسائل بھی ہیں اور گنجائش بھی بات صرف عزم اور ترجیحات کو طے کرنے کی ہے‘‘۔
واضح رہے کہ جبری مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد کے بارے میں تازہ سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں۔