پاکستان کے دیہی علاقوں میں بچوں کی شادیوں کی روک تھام کے لیے قانونی طور پر کم سے کم عمر 16 سے 18 سال مقرر کر دی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود دیہاتوں میں بچوں کی شادیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی ایک وجہ اپنی فرسودہ روايات سے دیہاتیوں کی گہری وابستگی، اپنے خاندانی رشتوں کو مضبوط تر کرنے کی ان کی خواہش، اس فرسودہ روایت کو جاری رکھنے کے لیے سماجی اور خاندانی دباؤ، اور خاص طو ر پر غربت ہے۔ مالی مسائل کے شکار والدین لڑکیوں کی جلد از جلد شادی کر کے خود کو ان کی مالی ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دیکھنے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کے واقعات کے تسلسل کی ایک وجہ کم عمری کی شادی کے قانون سے دیہی معاشرے کی لا علمی بھی ہے۔ تاہم دیہی علاقوں کی پولیس کا کہنا ہے کہ اب جب کہ حکومت کم عمری کے قانون کے نفاذ پر زور دے رہی ہے، جب کبھی ایسے کسی واقعہ کی پولیس کو خبر ہو تی ہے تو وہ فوری کارروائی کر کے اسے رکواتی ہے اور ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ پیش کرتی ہے۔
سندھ کے ڈسٹرکٹ دادو میں خواتین پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او بے نظیر جمالی نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب کبھی انہیں ایسے کسی واقعے کی پیشگی یا بر وقت اطلاع مل جاتی ہے تو وہ بر وقت جائے واقعہ پر پہنچتی ہیں اور لڑکی یا لڑکے کو بازیاب کر کے انہیں عدالت میں پیش کرتی ہیں اور کبھی کبھی وہ موقع پر ہی شادیاں رکوا کر انہیں تنبیہ کر تی ہیں کہ وہ اس وقت تک ان بچوں کی شادیاں نہ کریں جب تک وہ قانونی طور پر شادی کی عمر کو نہ پہنچ جائیں۔
بے نظیر جمالی کا کہناتھا کہ وہ تین سال سے اس تھانے کی انچارج ہیں اور اب تک کم عمری کی پندرہ شادیاں رکوا چکی ہیں ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں ان شادیوں کی اطلاعات کیسے ملتی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ یہ اطلاع یا تو مقامی صحافی دیتے ہیں یا وہ لڑکی یا لڑکا خود ہی موبائل فون پر انہیں بتا دیتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی کوششوں کے باوجود کم عمری کی شادیوں کا سلسلہ پھر بھی جاری ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مجرموں کو، جن میں بچوں کے والدین، رشتے دار اور نکاح خواں شامل ہیں، قانون کے مطابق جیل یا جرمانے کی سزا نہیں مل رہی کیوں کہ بیشتر واقعات میں جب انہیں عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو لڑکیاں یا لڑکے شادی کرانے والے اپنے والدین یا رشتے داروں کے خلاف بیان نہیں دیتے اور عدالت انہیں محض تنبیہ کر کے چھوڑ دیتی ہے۔
بے نظیر جمالی کا کہنا تھا کہ جب سے انہوں نے بچوں کی شادیاں رکوانے کی کارروائیاں شروع کی ہیں علاقے میں لوگوں کو اس قانون کے بارے میں پتا چل رہا ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ اب وہ ایسی شادیاں کرنے سے گریز کر رہے ہیں ۔
سندھ کے علاقے جوہی کی ایک لڑکی روزینہ نے جس نے چند سال قبل بارہ تیرہ سال کی عمر میں اپنی طے شدہ شادی رکوانے کے لیے اپنی بیوہ ماں سے سخت احتجاج کیا تھا اور اپنی شادی رکوا لی تھی وائس آف امریکہ کو انٹر ویو میں بتایا کہ اس کی والدہ نے اس موقع پر سمجھ سے کام لیا اور میری ضد کے آگے اپنے رشتے داروں کے سامنے ڈٹ گئیں اور اپنی بیٹی کی شادی کرنے سے انکار کر دیا ۔ روزینہ نے کم عمری کی شادی کے نقصانات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر والدین اور دیہات کے لوگ ایسی شادیوں کے نقصانات دیکھتے ہوئے بھی اس فرسودہ رسم کو جاری رکھیں گے تو وہ اپنے بچوں اور ان کے آنے والے بچوں کو طبی ، معاشرتی اور معاشی مسائل کا شکار کرتے رہیں گے اور خود بھی مسائل کا شکار رہیں گے کیوں کہ اس کا کہنا تھا کہ کم عمری میں ہونے والی شادیاں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔