رسائی کے لنکس

پاک چین تعلقات پر ایک نظر


پاک چین تعلقات پر ایک نظر
پاک چین تعلقات پر ایک نظر

وین جیاباؤکے ہمراہ ایک بڑا وفد بھی اسلام آباد پہنچا ہے جس میں 250سے زیادہ بڑے چینی صنعت کار اور کاروباری حضرات شامل ہیں جو پاکستان کی مقامی تاجر برادری سے تجارتی تعلقات کے فروغ اور دوطرفہ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کرینگے۔

چین کے وزیرِ اعظم وین جیا باؤ جمعہ کے روز پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچے جہاں ان کا استقبال ان کے پاکستانی ہم منصب سید یوسف رضا گیلانی اور دیگر عمائدین نے کیا۔

وین جیاباؤکے ہمراہ ایک بڑا وفد بھی اسلام آباد پہنچا ہے جس میں 250سے زیادہ بڑے چینی صنعت کار اور کاروباری حضرات شامل ہیں جو پاکستان کی مقامی تاجر برادری سے تجارتی تعلقات کے فروغ اور دوطرفہ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کرینگے۔

چینی وزیرِ اعظم کے حالیہ دورے کے دوران پاکستان کے ساتھ 20 ارب ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط کیے جائینگے۔ چینی رہنما نے پاکستان آمد سے قبل بھارت کا دورہ کیا تھا جہاں ان کے دورے کے دورا ن 16 ارب ڈالر کے 50 معاہدوں پر دستخط کیے گئے ۔

چینی وزیرِ اعظم پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایونوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کے علاوہ اپنے اعزاز میں دیے گئے ایک اعلیٰ سطحی عشائیے میں بھی شرکت کرینگے جس میں پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین اور اعلیٰ سول و فوجی حکام بھی شریک ہونگے۔

پاکستان چین کو اپنا سب سے اہم ترین دوست تصور کرتا ہے اور چینی قیادت کی جانب سے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اس سے قبل چینی صدر ہوجن تاؤ اپنے دورہ پاکستان کے دوران پاک چین دوستی کو "سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند" قرار دے چکے ہیں۔ دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم اصول ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ ہےاور تمام عالمی معاملات اور تنازعات پر دونوں ممالک ایک ہی رائے کا اظہار کرتے آئے ہیں۔

چین ہمیشہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ تنازع مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کرتا آیا ہے۔ جواباً پاکستان عالمی برادری کے موقف کے برعکس تائیوان اور تبت کے تنازعات اور انسانی حقوق سمیت دیگر معاملات کو چین کا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے اور پاکستانی حکام کی جانب سے عالمی برادری کی تنقید کے جواب میں ہمیشہ چین کا سرگرمی سے دفاع کیا جاتا رہاہے۔

پاکستان حال ہی میں چین میں قید ایک حکومت مخالف کارکن کو امن کا نوبیل انعام دیے جانے کے فیصلے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی ایورڈ کی روایت کی خلاف ورزی قرار دے چکا ہے۔

پاکستان اور چین کے درمیان باقاعدہ تعلقات کا آغاز 1950 میں ہوا تھا۔ پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے عالمی برادری کے دیگر چند ممالک کے ہمراہ 1950 کے تائیوان، چین تنازعے کے فوری بعد چین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات آئندہ سال 31 مئی 1951ء میں قائم ہوئے۔

پاکستان نے چین کو اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی فورمز کا کا رکن بننے میں مدد فراہم کرنے کے علاوہ اس کے اسلامی دنیا کے ساتھ رابطوں کے قیام اور تعلقات کے فروغ کےلیے اہم خدمات انجام دیں۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں نمایاں گرم جوشی 1962 کی چین- بھارت سرحدی جنگ کے بعد پیدا ہوئی۔ بھارت کو اپنا روایتی دشمن سمجھنے والی پاکستانی قیادت نے چین سے تعلقات بڑھاتے ہوئے اسے خطے میں ایک متبادل طاقت کے طورپر ابھرنے میں مدد فراہم کی تاکہ بھارتی اثر و رسوخ کا راستہ روکا جاسکے۔

1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھی چین نے پاکستان کو خاصی مدد فراہم کی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان فوجی اور اقتصادت رابطوں میں مزید گرم جوشی پیدا ہوئی۔ 1970 میں پاکستان نے اس وقت کے امریکی وزیرِخارجہ ہینری کسنجر کے خفیہ دورہ بیجنگ کے انتظامات ممکن بنا کے چین اور مغربی دنیا کے درمیان براہِ راست رابطوں کو ممکن بنایا جس کے نتیجے میں 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن چین کا سرکاری دورہ کرنے والے پہلے مغربی راہنما بنے ۔

1978 میں چین اور پاکستان کے درمیان پہلے اور اب تک کے واحد زمینی راستے قراقرم ہائی وے کا باقاعدہ افتتاح ہوا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور رابطوں میں اضافہ ہوگیا۔

1980 کی دہائی میں افغانستان میں روسی افواج کے داخل ہونے کے بعد چین نے پاکستانی موقف کی حمایت کرتے ہوئے خطے سے روسی انخلاءکا مطالبہ کیا۔ گوکہ افغان جنگ کے پورے عرصے کے دوران چین بظاہر غیر جانبدار رہا تاہم قیاس کیا جاتا ہے کہ بیجنگ نے اس پورے عرصے کے دوران اسلام آباد کے راستے افغان گوریلوں کو روس کے خلاف خاموش مدد بھی فراہم کی۔

گزشتہ 20برسوں کے دوران چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور تعاون میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور کئی مشترکہ فوجی اور اقتصادی منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کے اہم منصوبوں میں 2001 میں الخالد ٹینک، 2007 میں لڑاکا طیارے "جے ایف -17 تھنڈر"، 2008 میں "ایف-22 پی" فریگیٹ اور "کے-8 قراقرم" ایڈوانسڈ تربیتی طیاروں کی تیاری اور دفاعی میزائل پروگرام میں قریبی اشتراک شامل ہے۔ دونوں ممالک کی افواج کئی مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرچکی ہیں جن میں سب سے اہم رواں سال ہونے والی فوجی مشق تھی جس کا مقصد انسدادِ دہشت گردی کے لیے باہمی تعاون کا فروغ قرار دیا گیا تھا۔ دفاعی تعاون کی انہی سمجھوتوں کی بدولت 2007 میں چین پاکستان کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔

پاکستان اور چین کے درمیان جوہری توانائی کے میدان میں تعاون کے سمجھوتے پر 1984 میں دستخط کیے گئے تھے جس کے بعد سے دونوں ممالک اس معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کرتے آرہے ہیں۔ 1999 میں چین کی جانب سے چشمہ میں300 میگا واٹ کا جوہری بجلی کا پلانٹ پایہ تکمیل کو پہنچا جبکہ اسی سلسلے کے ایک اور پراجیکٹ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اسی عرصے میں چین نے پاکستانی شہر خوشاب کےنزدیک واقع جوہری مرکز کی تعمیر میں بھی تعاون فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

رواں سال امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ بھارت کی طرز پر سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے تبادلے کا معاہدہ کرنے سے انکار کے بعد چین جوہری توانائی کےلیے دو پلانٹس کی تعمیر میں پاکستان کو مدد فراہم کرنے پر آمادگی کا اظہار کرچکا ہے جس کے معاہدے کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔

پاکستان کے خلائی پروگرام میں چینی ٹیکنالوجی اور تعاون کا بڑا عمل دخل ہے۔ 1990 میں پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ سہولیات نہ ہونے کے باعث ایک چینی اسٹیشن سے ہی خلاء میں بھیجا گیا تھا جس کے بعد سے باہمی تعاون کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسکے علاوہ بھی دونوں ممالک کے درمیان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قریبی تعاون کے کئی منصوبے جاری ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون کا یہ سلسلہ اقتصادی میدان میں بھی جاری ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی، دفاعی اور معاشی لحاظ سے اہم ترین بندرگاہ گوادر بھی چینی تعاون سے ہی تعمیر کی گئی ہے۔ 2002 میں آغاز کیے گئے 248 ملین ڈالر کے اس مشترکہ پروجیکٹ کیلیے چین نے 198 ملین ڈالرز فراہم کیے جب کہ بندرگاہ کی تعمیر کے تمام مراحل میں بھی چین کی تیکنکی اور افرادی مدد بہم رہی۔

دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا حجم اس وقت 7 ارب ڈالرز سالانہ ہےجسے 2011 تک 15 ارب ڈالرز تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ رواں سال کے ابتدائی دس ماہ میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کے حجم میں29 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس میں پاکستانی برآمدات میں ہونے والے اضافے کی شرح 6ء27 فی صد رہی۔

دونوں ممالک کے درمیان 2008 میں "فری ٹریڈ معاہدے" پر دستخط کیے گئےتھے جس کے تحت چین پاکستان میں نئی صنعتیں لگارہا ہے جبکہ پاکستان کو چین میں یہ سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے کسی بھی ملک کے ساتھ کیا جانے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاہدہ ہے جس پر مکمل عمل درآمد اور اسکے اگلے فیز کے آغاز پر بھی چینی وزیراعظم کے حالیہ دورے میں مذاکرات کیے جائیں گے۔

2008 میں ہی دونوں ممالک نے قراقرم ہائی وے کے ساتھ ساتھ ریل روٹ بچھانے پر بھی اتفاق کیا۔ ریل کے اس رابطے سے چینی مصنوعات کو براہِ راست گوادر پورٹ تک رسائی مل جائے گی۔ اس کے علاوہ چین اپنے صوبے سنکیانگ سے منسلک پاکستانی علاقے گلگت بلتستان میں بھی ہائی ویز اور کئی دیگر پروجیکٹس کی تعمیر میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔

چین پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے بے شمار منصوبوں میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کا حجم گزشتہ کچھ برسوں میں 3ء1 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے۔ ان اہم ترین پروجیکٹس میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 500 ملین ڈالرز کی مالیت سے قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈنگ اور پاک چین فرینڈ شپ سینٹر کی تعمیر شامل ہے۔

اس وقت کئی چینی کمپنیاں پاکستان میں آئل اینڈ گیس، آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام، پاور جنریشن، انجینئرنگ، آٹو موبائیلز اور انفراسٹرکچر اینڈ مائننگ کے شعبوں میں کام کررہی ہیں ۔ ان شعبوں کے علاوہ بھی کئی دیگر پراجیکٹس میں چین کی جانب سے سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔

ان تمام شعبوں میں تعاون کے علاوہ دونوں ممالک قدرتی آفات اور دیگر مشکل وقتوں میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔ 2005 میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں چین نے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کی تھی۔ رواں سال آنے والے سیلاب سے نمٹنے کےلیے بھی چین نے پاکستان کو 247 ملین ڈالرز کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔

چینی وزیرِ اعظم کے حالیہ دورے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید گہرائی اور جاری تعاون میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ دورے کے بیان کردہ مقاصد میں دو طرفہ اسٹریٹجک تعلقات کو وسعت دینے، اقتصادی تعاون کا فروغ، علاقائی امن اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ کوششوں کو فروغ دینا ہے۔

XS
SM
MD
LG