پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ملک میں انصاف کی جلد فراہمی کے لیے نظام انصاف میں دوررس اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے یہ بات ہفتہ کو اعلیٰ عدلیہ سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ مقدمات بروقت نمٹانے کے ذمہ داری صرف عدلیہ پر عائد کرنا مناسب نہیں ہوگا ۔
انہوں نے کہا کہ " کیا سول جج، سیشن جج وہ کام نہیں کررہا ہے جتنا وقت اسے دیا گیا جتنے مقدمات اسے دیئے گئے کیا ۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اتنے کام نمٹا سکے، اگر یہ ممکن ہی نہیں ہے تو پھر بھی کیا قصور وار جج ہے یا اس پورے نظام میں وسیع تر سطح پر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے اور ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور اگر وہ پھر انصاف کی فراہمی میں کوتاہی کرے تو اس کا احتساب کرنا چاہیے۔"
انہوں نے کہا کہ فوجداری مقدمات کی تفتیش اور ان سے متعلق استغاثہ کے معیار کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نظام انصاف میں اصلاحات صرف قانون سازی سے ہی ممکن ہے۔
" ہم اپنے فیصلوں کے ذریعے قانون نہیں بنا سکتے ہیں یہی عدلیہ کی خوبی ہے لیکن جس نے اس قانون میں بہتری لانی ہے وہ اس طرف زیادہ توجہ دیں اور بہتری لائیں۔"
ایک عرصے سے ملک کے نظام عدل سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مختلف حلقے نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر علی ظفر نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہملک میں جلد انصاف کی فراہمی کے لیے مقننہ، عدلیہ اور وکلا برادری کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
" میرا خیال یہ ہے کہاس میں 70 فیصد ذمہ داری پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں پر عائد کرسکتے ہیں کیونکہ قانون سازی ان کا کام ہے اور عدالتی اصلاحات اس لیے کرنا ضروری ہیں کہ گزشتہ 50 ، 60 سال سے اس طرف مناسب توجہ نہیں دی گئی ہے۔"
انہوں نے کہا اس کے ساتھ ساتھ ذیلی عدالتوں کی ججوں کی صلاحیت کو بہتر کرنا بھی ضروری ہے۔ علی ظفر نے مزید کہا کہ جہاں وکلاء کو مقدمات میں غیر ضروری التوا کی درخواستوں سے گریز کرنا چاہیے وہیں بے بنیاد مقدمات دائر کرنے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ کے علاوہ ملک کی ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔
حکومت نے گزشتہ سال مارچ میں ماتحت عدالتوں میں مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے لیےتنازعات کے متبادل تصفیے کا قانون وضع کیا تھا۔
اگرچہ ملک کی عدالتیں ان مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں لیکن روز بروز دائر ہونے نئے مقدمات کی وجہ سے ان پر مقدمات کے بوجھ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔