رسائی کے لنکس

'لگتا ہے کچھ نہیں بدلا'


مختاراں مائی
مختاراں مائی

ماضی کے اوراق پلٹیں تو پتا چلتا ہے کہ پنچائیتوں اور جرگوں کے فیصلے بھلے ہی ملک کے ہر حصے میں ہوتے رہے ہوں، لیکن ملک کے گنجان اور زرخیز ترین صوبے پنجاب کا جنوبی حصہ اس میں نمایاں نظر آتا ہے۔ چاہے وہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ہوں یا پھر پنچائیتوں کے "فوری فیصلے" کی بھینٹ چڑھتے مردوخواتین

پنچائیت اور مقامی جرگے پاکستانی معاشرے میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور فرسودہ روایات کے نام پر اپنے ہی قوانین کے تحت سنائے جانے والے ان کے فیصلوں کو اکثر و بیشتر غیر انسانی قرار دیتے ہوئے ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی میں خاصی بحث بھی ہوتی ہے۔

ماضی کے اوراق پلٹیں تو پتا چلتا ہے کہ پنچائیتوں اور جرگوں کے فیصلے بھلے ہی ملک کے ہر حصے میں ہوتے رہے ہوں، لیکن ملک کے گنجان اور زرخیز ترین صوبے پنجاب کا جنوبی حصہ اس میں نمایاں نظر آتا ہے۔ چاہے وہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ہوں یا پھر پنچائیتوں کے "فوری فیصلے" کی بھینٹ چڑھتے مردوخواتین۔

2002ء میں مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میر والا کی مختاراں مائی پنچائیت کے فیصلے پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی نہ تو پہلی خاتون تھیں اور ہی آخری۔

رواں ماہ اسی شہر سے ملتان جاتے ہوئے دریائے چناب کے کنارے آباد ایک قصبے راجپور میں ایک کمسن بچی سے مبینہ جنسی زیادتی کے مرتکب لڑکے کے خلاف پنچائیت نے فیصلہ دیا کہ اس بچی کا بھائی لڑکے کی بہن کے ساتھ بھی یہی سلوک کرے۔

واقعہ منظر عام پر آیا، اقتدار اور عدل کے ایوانوں تک گونج پہنچی، طلبیاں اور معطلیاں ہوئیں لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ کیا امر مانع ہے کہ نئے سخت قوانین بھی موجود ہیں اور ہر بات کی سُن گُن میں رہنے والا متحرک میڈیا بھی لیکن فرسودہ روایات کے امین نسل در نسل اس تاریک نظام کی آبیاری کرتے چلے جا رہے ہیں۔

مختاراں مائی کہتی ہیں کہ قوانین اپنی جگہ لیکن جب تک ان پر ٹھوس طریقے سے عملدرآمد ہوتا نظر نہ آئے تو کسی تبدیلی کی امید ہر گز توانا نہیں ہو سکتی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس تازہ واقعے سے انھیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ نہیں بدلا۔

اُنھوں نے کہا کہ، "میں نے جب یہ واقعہ سنا تو مجھے وہی 2002ء والی بات یاد آگئی ہم لوگ آگے نہیں بڑھے ہم لوگ 2002ء میں ہی کھڑے ہیں۔۔کیسے بدلا جائے گا کیونکہ ان کو کوئی خوف نہیں ہے کہ ہمیں کوئی سزا ہو سکتی ہے، ہم پکڑے جائیں گے، پکرے جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم واپس آ جائیں گے۔۔۔جب تک کسی کو عبرتناک سزا نہیں ملے گی تب تک کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔"

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور معروف کالم نگار ظہور دھریجہ کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں کی محرومی ان فرسودہ روایات کو تسکین بخشتی ہے اور جب تک لوگوں کو بااختیار نہیں بنایا جاتا تب تک حالات میں بہتری مشکل ہے۔

بقول اُن کے، "بنیادی طور پر یہ جہالت کی وجہ سے ہے اور جہالت کی ماں غربت ہے، سرائیکی وسیب میں غربت ہے، پسماندگی ہے تعلیمی سہولیں نہیں ہیں۔۔۔وسائل کی کمی نہیں افرادی قوت کی کمی نہیں خام مال وافر مقدار میں ہے لیکن جب تک بنیادی ڈھانچہ درست نہیں ہوگا لوگوں کو ترقی نہیں ملی گی تو اس وقت تک حالات کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔"

ان کا شکوہ تھا کہ ملک کا متحرک میڈیا بھی چھوٹے علاقوں پر نہ تو اتنی توجہ دیتا ہے اور نہ ہی مناسب وقت جتنا وہ بڑے شہروں کی چھوٹی خبروں کو دیتا ہے۔

مبصرین اور انسانی حقوق کے کارکنان یہ کہتے آ رہے ہیں کہ مثبت رجحان کے فروغ کے لیے مسلسل آواز بلند کرنا ضروری ہے تاکہ مسائل کو مسائل سمجھا جائے اور ان کے حل کے لیے تگ و دو کی جائے۔

XS
SM
MD
LG