رسائی کے لنکس

پاکستان کے آئندہ منصوبوں سے ایل این جی آؤٹ، کوئلے سے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر غور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وزیرِ توانائی خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ زرِ مبادلہ کے بحران سے نمٹنے کے لیے توانائی کے شعبے میں کوئلے پر انحصار بڑھا رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو میں خرم دستگیر نےکہا کہ پاکستان کی طویل دورانیے کے لیے کی گئی منصوبہ بندی میں ایل این جی شامل نہیں البتہ کوئلے کے ذریعے توانائی کا حصول پہلے سے چار گنا کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کوئلے سے موجودہ حاصل ہونے والی دو ہزار 310 میگا واٹ بجلی کی استعداد کو بڑھا کر 10 ہزار میگا واٹ تک لے جانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

دنیا بھر میں توانائی کے بحران کی وجہ سے کئی ترقی پذیر ممالک کے لیے اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ایسے میں پاکستان کا کوئلے پر انحصار کو بڑھانا عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی پالیسیوں کے برعکس ہے۔

پاکستان اپنی توانائی کی ایک تہائی ضروریات گیس سے پوری کرتا ہے۔لیکن قدرتی گیس کے ذخائر کی مسلسل کمی اور قیمتوں میں اضافے کے باعث ملک کے اکثر حصوں کو گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔

روس یوکرین جنگ کے بعد عالمی سطح پر ایل این جی کی قیمتوں میں اضافے اور معاشی بحران سے پاکستان کے لیے مہنگی ایل این جی خریدنا ممکن نہیں رہا۔

گزشتہ برس توانائی کی ضروریات بڑھنے کے باوجود پاکستان عالمی منڈی سے سستی ایل این جی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور ایل این جی درآمدات گزشتہ پانچ برس کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں۔

خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ملک کے پاس ایل این جی سے چلنے والے دنیا کے بہترین پاور پلانٹس موجود ہیں لیکن انہیں چلانے کے لیے ایل این جی دستیاب نہیں۔ اس لیے پاکستان موجودہ معاشی بحران اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے اپنی درآمدات کو کم کرنے پر کام کر رہا ہے۔

پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے پاس ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر پہنچ کر محض دو ارب 90 کروڑ ڈالر پر آ چکے ہیں۔

زرِ مبادلہ کے یہ ذخائر ملک کی تین ہفتے کی درآمدات کے لیے ہی کافی ہیں۔

خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ نہ صرف سستی توانائی کے ذرائع استعمال کرنے کا ہے بلکہ مقامی ذرائع پر انحصار بڑھانا بھی اس پالیسی کا مقصد ہے۔

گزشتہ ہفتے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت تھر میں تعمیر ہونے والےایک ہزار 320 میگا واٹ کے شنگھائی الیکٹرک تھر پاور پلانٹ نے بجلی کی پیداوار شروع کر دی ہے۔

وزیر توانائی نے تفصیلات دیے بغیر بتایا کہ پاکستان کوئلے کے ساتھ ساتھ شمسی، ہائیڈرو اور نیوکلیئر ذرائع سے بننے والی بجلی کی استعداد بھی بڑھانے پر کام کر رہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق ملک میں مزید پاورپلانٹس لگائے جانے کے بعد ہی بجلی کی طلب اور رسد میں فرق ختم ہوگا .

گزشتہ برس پاکستان میں سخت گرمی کے مہینے جون میں بجلی کی ریکارڈ طلب 28 ہزار 500 میگاواٹ تھی۔ اس کے بر عکس ملک میں موجود پاور پلانٹس سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 43 ہزار770 میگا واٹ ہے۔ یعنی پاکستان میں بجلی کی طلب اس کی پیداواری استعداد سے 35 فی صد کم ہے لیکن پلانٹس کو چلانے کے لیے درکار ایندھن کی کمی کا سامنا ہے۔

پاکستان کی حکومت کی جانب سے اب تک یہ تفصیلات واضح نہیں کی گئی ہیں کہ ملک میں مجوزہ پاور پلانٹس بنانے کے لیے فنڈ کہاں سے حاصل کیے جائیں گے۔

وفاقی وزیر خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ نئے پاور پلانٹس سرمایہ کاروں کے مفاد کے تحت بنیں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ کوئلے کے پلانٹس کے کارآمد ثابت ہونے پر مزید سرمایہ کاری ہوگی۔

ترقی پذیر ممالک میں کوئلے سے توانائی کے حصول کے منصوبوں پر جاپان اور چین کے مالی ادارے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں البتہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مغربی حکومتوں کے بڑھتے دباؤ کے باعث یہ ادارے کوئلے سے توانائی کے حصول کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے سے حالیہ برسوں میں کترا رہے ہیں۔

اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG