پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ایک بار پھر کوئلے کی کان سات زندگیوں کو نگل گئی۔
ضلع لورالائی کے علاقے دُکی میں جمعرات کی دوپہر سات کان کن کو ئلہ نکالنے کے لیے زیر زمین دو ہزار فٹ تک گئے جہاں ہوا کا مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث کان کے اندر میتھین گیس بھر گئی اور کوئلہ نکالنے کے لیے کی جانے والی کھدائی کے دوران شعلہ بھڑکنے سے دھماکا ہو گیا۔
دھماکے سے کوئلے کی یہ کان اندر دھنس گئی اور وہاں موجود کان کن اس ملبے تلے دب گئے جنہیں نکالنے کے لئے 13 مزدور کان کے اندر داخل ہوئے۔
اس دوران مٹی کا تودہ گرنے سے یہ مزدور اُس میں دب گئے تاہم دیگر مزدوروں نے اُنھیں وہاں سے نکال لیا۔ ان میں سے ایک مزدور ہلاک ہو چکا تھا جب کہ دیگر 12 زخمیوں کو مقامی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
کول مائن انسپکٹر افتخار احمد کا کہنا ہے کہ کان کے اندر ڈیڑھ ہزار فٹ نیچے سے ملبے تلے دبے ہوئے سات کان کنوں کی لاشوں کو نکالنے کے لیے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
کان کنی کے ماہرین نے مزدوروں کی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ان کانوں کے اندر پھنس جانے والے کان کنوں کو نکالنے کے لیے پرائیویٹ کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار کا نہ ہونا قرار دیا ہے۔
کان کنوں کی ایک بڑی تنظیم نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم میر داد خیل کا کہنا ہے کہ سرکاری اور نجی کوئلہ کانوں میں کان کے اندر کام کرنے والے مزدوروں کو صاف ہوا کی فراہمی کے لیے کوئی مناسب انتظام نہیں ہوتا ہے اور پھنس جانے والے مزدوروں کو فوری طور پر نکالنے کے لیے کوئی مشینری بھی کسی کے پاس نہیں ہوتی۔
متاثرہ کان میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے بھی جمعرات کو دیر گئے بھاری مشینری اور آلات کوئٹہ سے منگوائے گئے تھے۔