پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان سندھ کی انتظامی حیثیت سے متعلق مذاکرات کے کئی دور بے نتیجہ رہنے کے بعد با لا آخر صوبے میں 1979ء کا بلدیاتی و کمشنری نظام ایک بار پھر بحال کردیا گیا ہے۔ سندھ حکومت کے جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق کراچی سمیت سندھ کی پرانی حیثیت بحال ہو گئی ہے اور صوبے کے پانچوں اضلاع میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز تعینات کردئیے گئے ہیں۔ تاہم پانچ روز کے انتظامی خلا اور جمعرات کو پرانے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے بعد اب یہ معلوم نہیں کہ اس نظام کی دوبارہ بحالی کتنی مدت کے لیے ہے۔
پاکستان کا اقتصادی مرکز اور سب سے بڑی آبادی والا شہر کراچی رواں سال امن و امان کی انتہائی خراب صورتِ حال کے ساتھ انتظامی بدحالی کا بھی شکار رہا ہے۔ کراچی میں مستقل قیام ِ امن کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ اس سوال کا جواب دینا ہے کہ یہاں حکومت کس نظام کے تحت چل رہی ہے یا چلتی رہی ہے۔ ایسے میں مبصرین یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ جو حکومت صوبے میں نظام کا تعین ہی نہ کرسکے وہاں صحت ، تعلیم اور دیگرشعبوں سمیت انتظامی مسائل کی کیا صورتِ حال ہوگی؟
سندھ میں پرانے بلدیاتی نظام کی بحالی خود پیپلز پارٹی سمیت یہاں کی تمام سیاسی و قوم پرست جماعتوں کا مطالبہ رہا ہے اور صرف ایم کیو ایم ہی اس نظام کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ واضح رہے کہ 2001 ء میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک بھر میں ضلعی حکومتوں کا نظام رائج کردیا تھا۔ اس نظام کے تحت کراچی کے بعد ایم کیوایم حیدرآباد میں بھی سب سے بڑی سیاسی قوت بن گئی تھی ۔ تاہم رواں سال ایم کیو ایم کی پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بعد ،حکمراں جماعت نے 2001 ء کے مقامی حکومتوں کے نظام کو ختم کرکے کراچی اور حیدرآباد کی پرانی حیثیت بحال کر دی تھی جس کے تحت کراچی پانچ اضلاع میں تقسیم ہو گیا جب کہ سندھ کے تین اضلاع کو حیدرآباد ضلع کا حصہ بنا دیا گیا۔دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کی شدت میں کمی کے لیے گورنر سندھ نے ایک خصوصی آرڈیننس کے ذریعے کمشنری نظام کو موخر کر کے سندھ میں نوے روز کے لیے 2001 ء کے ضلعی حکومتوں کے نظام کو ایک بار پھر رائج کردیا۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت گورنر کسی آرڈیننس کو صرف نوے روز کے لیے جاری کرسکتے ہیں ۔ تاہم اس دوران دونوں جماعتیں نئے بلدیاتی نظام پر متفق نہ ہوسکیں اور آرڈیننس کی مدت بھی پوری ہوگئی لیکن حکومت کی جانب سے کوئی نوٹی فکیشن جاری نہ ہوسکا ۔ جب کہ دونوں جماعتوں کی ہفتہ کو ہونے والی پریس کانفرنس میں بھی سندھ کے موجودہ نظام سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کیا گیا۔
ایم کیو ایم کمشنری نظام کو مستقل طور پر قبول کرنے کے لیے تیارنہیں ہے اور دونوں جماعتیں سندھ میں نئے نظام کو لانے کے لیے مذاکرات جاری رکھنے کے اعلانات کر رہی ہیں اور یہ کہہ چکی ہیں کہ عید کے بعد نیا نظام متعارف کرایا جائے گا ۔ ایسے میں یہ بات یقینی ہے کہ جمعرات کو دوبارہ بحال کیا گیا پرانا کمشنری و بلدیاتی نظام ایک بار پھر بدلے گا ۔ مگر حکمراں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے موسم کی طرح بدلتے ہوئے تعلقات کی روش کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں معلوم کہ آنے والے نئے نظام کی مدت کتنی ہوگی اور نظاموں کو بحال اور موخر کرنے کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔