پاکستان نے کہا ہے کہ وہ پڑوسی ملک افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور اس ضمن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت وضع کی جانے والی حکمت عملی کی حمایت کا خواہاں ہے۔
پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے روس کے شہر سوچی میں منعقدہ "سنگھائی تعاون تنظیم" کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک تانزع کے پرامن کا حامی ہے۔
"اس حکمت عملی کا مقصد تنازع کے مذاکرات کے ذریعے پرامن حل کی افغانستان کی کوششوں کی حمایت ہونا چاہیے تاکہ افغانستان اور خطے کو درپیش دہشت گرد خطرات سے نمٹا جا سکے۔"
ادھر افغانستان کے صدر اشرف غنی کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ان کا ملک خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعاون میں وسط کا خواہاں ہے اور وہ پاکستان کی حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
آذربائیجان میں منعقدہ 'ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف خطے کے تمام ممالک کی ذمہ داری مشترکہ ہے اور افغانستان میں اس میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
دونوں ملکوں کے راہنماؤں کے بیانات پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تناؤ کے تناظر میں تو حوصلہ افزا ہیں لیکن غیر جانبدار حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کو اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
سینیئر تجزیہ کار اے زیڈ ہلالی نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغان قیادت کی طرف سے پہلے بھی ایسے بیانات سامنے آتے رہے ہیں لیکن اس میں پیش رفت اسی صورت ممکن ہے جب عملی طور پر بھی قدم اٹھایا جائے گا۔
"اشرف غنی تو بارہا کہہ چکے ہیں وہ تیار ہیں لیکن اس تیاری کو مثبت انداز سے آگے بڑھاتے دکھائیں اور عملی طور پر اس بات کو سامنے لائیں کہ واقع افغانستان پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہے تب کہیں جمی ہوئی برف پگھلے گی نہیں تو صرف بات چیت کے عزم سے مسائل حل نہیں ہوتے۔"
افغانستان اس الزام کے ساتھ پاکستان پر تنقید کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں موجود ان دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا جو افغانستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔
لیکن پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کابل پر زور دیتا آ رہا ہے کہ وہ سرحد کی موثر نگرانی کے لیے اپنی جانب ٹھوس اقدام کرے تاکہ دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو روکتے ہوئے دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔