پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ مستند شواہد کی عدم موجودگی میں وہ کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ کی ہلاکت کی تصدیق کرنے سے قاصر ہیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ نے ایک روز قبل اطلاع دی تھی کہ 12 جنوری کو شمالی وزیرستان میں ایک مبینہ امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا مفرور کمانڈر حکیم اللہ محسود بھی مارا گیا تھا۔
لیکن پیر کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رحمٰن ملک نے طالبان کمانڈر کی ہلاکت کی تصدیق کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ اس نوعیت کی خبریں پہلے بھی منظر عام پر آئی تھیں جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔
’’جب تک مجھے کوئی ڈی این آے شہادت نہیں ملتی یا آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق موصول نہیں ہوتی میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ (حکیم اللہ محسود) مر گیا ہے۔‘‘
اتوار کو شائع ہونے والی اطلاعات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی انٹیلی جنس عہدے داروں نے طالبان جنگجوؤں کے ایک دوسرے کے ساتھ نصف درجن سے زائد وائرلیس پر ہونے والے رابطوں کو سنا ہے جن میں مبینہ امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا۔
عسکریت پسندوں کی آپس میں ہونے والی گفتگو کے دوران کچھ طالبان نے اپنے کمانڈر کی بارہ جنوری کے حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی جب کہ بعض نے اس موضوع پر وائرلیس پر گفتگو سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا۔
کالعدم تحریک طالبان کے ایک ترجمان نے اپنے کمانڈر کی ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملے کے وقت وہ علاقے میں موجود ہی نہیں تھا۔
اس سے قبل 2010ء میں بھی شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سنگم پر واقع ایک گاؤں پر مبینہ امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئی تھیں لیکن بعد میں طالبان کمانڈر نے خود ہی ذرائع ابلاغ سے رابطہ کرکے ان کی تردید کردی تھی۔
ان اطلاعات سے چند روز قبل حکیم اللہ محسود القاعدہ کے اُس خودکش بمبار کے الوداعی ویڈیو پیغام میں بھی نظر آیا جس نے شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغان صوبہ خوست میں سی آئی اے کے ایک اہم مرکز پر حملہ کرکے سات امریکی افسران کو ہلاک کیا تھا۔
تاہم تب سے آج تک اس شدت پسند کمانڈر نے اپنی نقل و حرکت کو محدود کر رکھا ہے اور وہ منظرعام سے تقریباً غائب ہے۔