رسائی کے لنکس

پاکستان کو آمادہ کرنے کی آخری امریکی کوشش بھی ناکام


پاکستان کو آمادہ کرنے کی آخری امریکی کوشش بھی ناکام
پاکستان کو آمادہ کرنے کی آخری امریکی کوشش بھی ناکام

امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے پاکستان کو بون کانفرنس میں شرکت پر آمادہ کرنے کی آخری سفارتی کوششیں بھی ناکام ہو گئی ہیں۔

افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پیر کو جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس اپنی نوعیت کا دوسرا اجلاس ہے جو 10 سال کے بعد ہو رہا ہے، اور اس میں 80 سے زائد ممالک کے نمائندے شرکت کریں گے۔

توقع ہے کہ اس اجلاس میں عالمی رہنما جنگ سے تباہ حال افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں میں 2014ء کے بعد بھی تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کریں گے جب منصوبے کے تحت تمام غیر ملکی لڑاکا افواج ملک سے واپس چلی جائیں گی۔

لیکن ایک ہفتہ قبل نیٹو کے ایک بلا اشتعال حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر احتجاج کے سلسلے میں پاکستان نے بون کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے آخری لمحات میں بھی پاکستانی قائدین سے رابطے کر کے انھیں اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کے لیے راضی کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن تاحال یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے ہفتہ کی شب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے مہمند ایجنسی میں پیش آنے والے واقعے کو غیر ارادی قرار دیتے ہوئے اس کا نشانہ بننے والے فوجیوں کے خاندانوں اور پاکستانی عوام کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اظہار تعزیت کیا اور کہا کہ اس کی تحقیقات تک انتظار کرنا چاہیئے۔

ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم پر قائم ہے۔

دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے بارے میں اسلام آباد میں جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ بون کانفرنس کے بائیکاٹ کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، لیکن وزیر اعظم گیلانی نے ہلری کلنٹن پر واضح کیا کہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی بھی اُن کی کابینہ اور دفاعی کمیٹی کے اس فیصلہ کی توثیق کر چکی ہے۔

بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کے فیصلے پر مختلف حلقے بشمول تجزیہ نگار اور سیاست دان متضاد رائے کا اظہار بھی کر رہے ہیں اور بعض کا کہنا ہے کہ اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ دانش مندانہ نہیں۔

عمران خان
عمران خان

کچھ ایسے یہ خیالات کا اظہار اپوزیشن رہنما عمران خان نے اسلام آباد میں اتوار کو اپنی نیوز کانفرنس کے دوران کیا اور کہا ’’میرا نقطہ نظر ہے کہ بون کانفرنس میں جا کر ہم کہتے کہ (افغانستان میں) جنگ کا نا منہ نا سر ہے، اس سے نکلو، امن کی طرف جاؤ۔‘‘

دس برس قبل اتحادی افواج کے حملے کے نتیجے میں طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی بون میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں مندوبین نے حامد کرزئی کی سربراہی میں عبوری افغان انتظامیہ کی منظوری دی تھی۔

اُس وقت پاکستان بھی اجلاس میں شریک ہوا تھا جب کہ پاکستانی افواج اور انٹیلی جنس ایجنسی کے تعاون کی بدولت امریکہ اور اتحادی افواج کو افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف اہم کامیابیاں ملیں۔

مبصرین کے خیال میں بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت افغانستان میں طالبان سے مفاہمت کی کوششوں کے لیے دھچکا ثابت ہو گا کیوں کہ شدت پسندوں سے مبینہ روابط کی وجہ سے مصالحتی عمل میں اس کا کردار ناگزیر تصور کیا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG