پاکستان نے خارجہ و قومی سلامتی سے متعلق پارلیمان کی حالیہ قرار داد کی روشنی میں شمالی وزیرستان میں موجود امریکہ مخالف افغان جنگجوؤں کے حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی آپریشن کا عندیہ دیا ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعرات کی شب اسلام آباد میں ملکی و غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی قرار داد میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور حکومت ان عوامی خواہشات کا احترام کرتی ہے۔
’’پس ہماری سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیئے ... اگر ہم امریکہ سے پارلیمانی قرار داد پر عمل درآمد کی توقع کرتے ہیں تو ہم پر بھی ایسا کرنا لازم ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ امریکی اور پاکستانی عہدے دار سفارشات کی روشنی میں معاملات طے کرنے کے لیے بات چیت میں مصروف ہیں اور اس میں پیش رفت بھی ہو رہی ہے، مگر مسٹر گیلانی نے واضح کیا کہ نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی اور امریکہ میں رواں ماہ افغانستان کے مستقبل پر نیٹو کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کا انحصار مذاکراتی عمل کے نتائج پر ہوگا۔
’’اگر دوطرفہ معاملات جلد طے پا جاتے ہیں تو (شکاگو کانفرنس میں) شرکت کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
وزیرِ اعظم گیلانی نے کہا کہ پارلیمان کے وضع کردہ رہنما اصولوں کی روشنی میں امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعاون کی شرائط پر ہونے والی بات چیت میں میں پیش رفت ہو رہی ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان کی پارلیمان نے خارجہ پالیسی سے متعلق جن سفارشات کی منظوری دی تھی ان میں امریکہ سے پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملوں کی فوری بندش اور مہمند ایجنسی کی سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے مہلک فضائی حملے پر امریکہ سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے توسط سے امریکی حکام کے جو بیانات اب تک سامنے آئے ہیں ان میں ڈرون حملے بند نہ کرنے اور غیر مشروط معافی نہ مانگنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
لیکن پاکستانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اگر صدر براک اوباما امریکی صدارتی الیکشن کو بنیاد بنا کر سلالہ حملے پر معافی سے گریزاں ہیں تو پاکستانی حکومت کو بھی ملک میں کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا ہے اور کوئی بھی ادارہ کسی ٹھوس امریکی اعلان کے بغیر دوطرفہ تعلقات کے معاملے پر آگے بڑھنے سے خائف ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: