بلوچستان میں ایک بار پھر کانگو وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کوئٹہ کے فاطمہ جناح ’ٹی بی سینٹوریم‘ کے ڈاکٹروں کے مطابق یکم اکتوبر کے بعد سے اب تک کانگو وائرس سے متاثرہ 12 مریضوں کو اسپتال لایا گیا جن میں سے چار ہلاک ہو گئے جب کہ زیر علاج مریضوں میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر شاہ نواز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ وائرس مال مویشیوں میں موجود پسو کی مدد سے انسانوں پر حملہ کرتا ہے جس کے بعد شدید بخار ہوتا ہے اور اس کے بعد ناک، منہ اور جسم کے دیگر حصوں سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔
’’جب آپ جانور ذبح کرنے لگیں تو کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ (دستانے) پہن لیں ۔۔۔۔ اس مقصد کے لیے جو چھری یا چاقو استعمال کیا جائے، اُس سے کسی کو کٹ نہ لگے۔۔۔ کیوں کہ کانگو وائرس خون کے ذریعے انسانی جسم کے اندر چلا جاتا ہے۔‘‘
اُدھر کانگو وائرس کے مریضوں میں اضافے کے بعد بلوچستان کی حکومت نے حفاظتی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
رواں ہفتے کوئٹہ میں ہونے والے ایک اعلیٰ اجلاس کے بعد ژوب اور کوئٹہ ڈویژن میں کانگو وائرس سے بچاؤ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اسپرے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ڈاکٹر شاہ نواز کا کہنا تھا کہ صوبے میں قائم خصوصی مرکز میں کانگو سے متاثرہ افراد کو مفت ٹیسٹ اور علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
بلوچستان میں کانگو وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے قائم مرکز میں صوبائی حکام کے مطابق گزشتہ سال 63 متاثرہ مر یض لائے گئے تھے جن میں 13 ہلاک ہوئے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں پرورش پاتا ہے، صوبائی حکام کے مطابق بلوچستان کے کئی اضلاع شدید خشک سالی کا شکار ہیں۔