پاکستان میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف سے فراہم کی گئی مفت مگر جعلی ادویات کے استعمال کے باعث لاہور کے اسپتالوں میں ہلاک ہونے والے امراض قلب کے مریضوں کی تعداد 104 ہو چکی ہے۔
ڈاکٹروں نے اس تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے کیوں کہ زیر علاج بیسیوں متاثرین میں سے کئی کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے اس اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کے مطالبات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں بھی اس معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی۔
اس بحث کے نتیجے میں چیئرمین سینیٹ فاروق نائیک نے بین الاصوبائی رابطوں سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو ناقص ادویات اور ان سے ہونے والی ہلاکتوں کے معاملے کا باغور جائزہ لینے کے بعد 10 روز کے اندر اپنی رپورٹ ایوان کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی۔
بحث کے دوران وفاقی وزیر پیٹرولیم عاصم حسین نے حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں 18 ویں ترمیم کے تحت صحت کا محکمہ صوبوں کو منتقل کیا جا چکا لیکن تقریباً دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود صوبائی سطح پر دوا سازی کی صنعت کی نگرانی کے لیے انضباطی نظام وضع نہیں کیا گیا ہے۔
’’ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے گاؤں، محلوں میں دوا سازی کی صنعت کام کر رہی ہے، جو اجزاء استعمال ہو رہے ہیں وہ بھی غیر معیاری ہیں، ان کی لیبارٹریاں بھی ناقص ہیں، اور کسی صوبے کے پاس ادویات کے تجزیوں کی سہولت نہیں ہے۔‘‘
پنجاب میں جعلی ادویات کے اس اسکینڈل نے صوبے اور وفاق میں حکمران جماعتوں کے درمیان الزامات کے تبادلے کا ایک نیا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔
اس سلسلے کا تازہ بیان جمعہ کو وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کی طرف سے سامنے آیا جس میں اُنھوں نے صوبے میں برسراقتدار مسلم لیگ (ن) کو تمام تر صورت حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اُن کی وفاقی وزارت نے اپنے طور پر بھی جعلی ادویات کے اسکینڈل کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اور ٹھوس شواہد دستیاب ہونے پر ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
’’میں چاہتا ہوں کہ (اس اسکینڈل پر) عدالتی کمیشن بنایا جائے، (تاکہ معلوم ہو سکے کہ) کون کون لوگ ملوث ہیں، معاہدہ کس نے کرایا، اتنے پیسے کس نے کمائے۔‘‘
ایک سو سے زائد مریضوں کی موت کا سبب بنے والی ادویات خصوصاً پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے لیے تیار کی گئی تھیں۔
صوبائی حکومت نے اس تمام معاملے کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں جب کہ متعلقہ ادویات تیار کرنے والی تین کمپنیوں کے مالکان کو بھی گرفتار کی جا چکا ہے۔
پنجاب حکومت کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق سرکاری اسپتال کی طرف سے فراہم کی گئی ادویات کو زیادہ تر غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 40,000 سے زائد مریضوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ان ادویات کے نمونے امریکہ سیمت چار ملکوں میں لیبارٹری تجزیوں کے لیے بھجوائے جا چکے ہیں جن کے نتائج آئندہ چند روز میں موصول ہو جائیں گے۔
حکومتِ پنجاب نے متعلقہ غیر معیاری ادویات کی کھیپ کو قبضے میں لینے کے لیے اخباری اشہارات کے ذریعے مریضوں کو انھیں استعمال نا کرنے اور فوری طور پر واپس کرکے متبادل ادویات حاصل کرنے کی ایک بھرپور مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔