رسائی کے لنکس

انسانی اسمگلنگ میں پاکستان کا نام آنے پر امریکی امداد میں مزید کمی متوقع


اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ایک ذریعے کے مطابق، اگر امریکی محکمہٴ خارجہ پاکستان کو انسانی اسمگلنگ کے بدترین عالمی مجرموں کی فہرست میں شامل کرتا ہے، تو سال 2017ء میں امریکی سولین امداد کا زیادہ حصہ یعنی 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی کمی واقع ہوگی

جنوری میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی سکیورٹی اعانت میں 2 ارب ڈالر کی معطلی کے بعد، امداد میں کوئی مزید کمی امریکہ پاکستان تعلقات کے لیے ایک اور دھچکا ہوگا۔

امداد کی گذشتہ منسوخی ٹرمپ کے مطابق، افغان باغیوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف پاکستان کی جانب سے کارروائی میں ناکامی کے باعث عمل میں لائی گئی، جہاں سے افغانستان پر حملے کیے جاتے ہیں۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ایک ذریعے کے مطابق، اگر امریکی محکمہٴ خارجہ پاکستان کو انسانی اسمگلنگ کے بدترین عالمی مجرموں کی فہرست میں شامل کرتا ہے، تو سال 2017ء میں امریکی سولین امداد کا زیادہ حصہ یعنی 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی کمی واقع ہوگی۔ انسانی اسمگلنگ سے متعلق سالانہ رپورٹ جون میں آتی ہے۔

یہ بات جمعرات کے روز ’رائٹرز‘ کی جاری کردہ ایک خبر میں کہی گئی ہے۔

پاکستان کی معیشت کے لحاظ سے یہ رقم نسبتاً زیادہ نہیں۔ لیکن، اس سے پاکستان کو سخت دھچکا لگے گا اگر امریکہ یہ بھی فیصلہ کرتا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے نئی اعانت کی مخالفت کی جائے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ وہ تمام پابندیاں ہیں جو وفاقی قانون کے مطابق امریکہ کسی بھی ملک کے خلاف عائد کر سکتا ہے، چاہے وہ ملک کم درجے کی انسانی اسمگلنگ میں ہی کیوں نہ ملوث ہوتا ہو، ماسوائے اس بات کے کہ ٹرمپ مکمل یا جزوی استثنیٰ کے احکامات جاری کریں۔

گذشتہ برس کی ’بلیک لسٹ‘ کے سلسلے میں اُنھوں زیادہ تر ملکوں کے لیے یہی کچھ کیا۔ اُنھوں نے اس ضمن میں وہ روایت برقرار رکھی جو اُن کے حالیہ پیش روؤں نے قائم کی تھی، جس میں خاص طور پر اُن ملکوں پر نرم ہاتھ رکھا گیا جو امریکی اتحادی یا پارٹنر ہیں۔

پاکستان کے خلاف اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے، ٹرمپ انتظامیہ یہ سوال اٹھائے گی آیا وہ ’ٹریفکنگ اِن پرسنز‘ کی رپورٹ کو وجہ بنا کر، انسداد دہشت گردی کے معاملے پر مزید اقدام کرنے کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ رپورٹ میں دیگر علاقائی و سیاسی مضمرات کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا۔ لیکن، گذشتہ سال انسانی حقوق کے گروپوں نے ٹرمپ انتظامیہ پر الزام لگایا تھا کہ، جیسا کہ اس سے قبل اوباما انتظامیہ پر بھی لگایا گیا تھا کہ عام طور پر وہ انسانی اسمگلنگ سے متعلق تشویش کے معاملے پر معاشی اور سکیورٹی مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔

پاکستانی وزیر داخلہ، احسن اقبال نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف ’’انتہائی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں‘‘، اور اس معاملے کو ’’ملکوں پر دباؤ ڈالنے کے سیاسی حربے کے طور استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے‘‘۔

ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ درجہ بندی کا معاملہ طے نہیں کیا گیا۔ لیکن، ایک مدت سے امریکہ کے مشکل اتحادی، پاکستان کو بتایا دیا گیا ہے کہ وہ نچلی سطح دیے جانے کی صورت میں امداد کی ممکنہ کٹوتی سے بچے۔ اس سے تبھی بچا جا سکتا ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے حوالے سے سچے دل سے کوششیں کرے، جو معاملہ اٹھایا گیا ہے۔

امریکی اہل کار، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کی، اس بات کو مسترد کیا کہ اس کا دارومدار ٹرمپ حکمت عملی کے لیے پاکستان کے تعاون سے ہے، تاکہ افغان طالبان کو امن بات چیت کی جانب لایا جاسکے یا پھر امریکی سول اعانت میں ممکنہ کمی کی جائے۔ اُنھوں نےاس بات پر زور دے کر کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ پاکستان کی جانب سے انسانی اسمگلنگ کے ریکارڈ پر ہی منحصر ہوگا۔

امریکی محکمہٴ خارجہ نے اس معاملے پر بیان سے احتراز کیا، ماسوائے اس بات کے کہ انسانی اسمگلنگ کے تدارک کے امریکی قانون کی رو سے سزاؤں کا ایک نظام موجود ہے۔

طویل مدت سے پاکستان ان امریکی الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے کہ وہ افغان طالبان اور اُس کے اتحادی حقانی نیٹ ورک کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے، جہاں سے وہ افغان حکومت اور افغانستان میں امریکی قیادت میں کام کرنے والی غیر ملکی افواج کے خلاف حملہ کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG