وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں ایک نوجوان موٹرسائیکل سوار کو گاڑی کی ٹکر سے ہلاک کرنے کے حادثے میں ملوث امریکی سفارت کار پاکستان میں ہی موجود ہیں اور ان کے خلاف قانون کے مطابق مناسب کارروائی کی جائے گی۔
گزشتہ ہفتے مارگلہ روڈ پر امریکی سفارت خانے کی ایک گاڑی کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار عتیق بیگ ہلاک اور راحیل زخمی ہو گئے تھے۔ یہ گاڑی سفارت خانے میں تعینات امریکی دفاعی اتاشی کرنل جوزف ایمانیوئل چلا رہے تھے۔
سفارتی استثنیٰ کے باعث پولیس نے ابتدائی طور پر سفارت کار کو گرفتار نہیں کیا تھا لیکن بعد ازاں وزارت داخلہ کو ایک خط لکھ کر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں اس معاملے پر پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف نے بتایا کہ مذکورہ سفارت کار تاحال پاکستان میں ہی موجود ہیں اور ان کے بقول امریکی سفارت خانے نے اس معاملے میں حکام کے ساتھ بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔
حادثے میں ملوث سفارت کار کو گرفتار نہ کرنے پر جہاں سماجی حلقوں کی طرف سے پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں عتیق بیگ کے لواحقین بھی اس بارے میں شاکی دکھائی دیتے ہیں۔
عتیق کے والد محمد ادریس نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ امریکی سفارت کار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جائے اور اس معاملے کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنانے کا حکم دیا جائے۔
عتیق کا تعلق مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں آباد ایک گاؤں تلہاڑ سے تھا جہاں ان کے گھر تعزیت کرنے والوں کی آمد کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری رہا۔
محمد ادریس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے جب کہ تین بیٹوں میں عتیق منجھلا تھا جو ان کے بقول ایک ہونہار طالب علم اور فرمانبراد بیٹا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مقامی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بات ہو رہی ہے لیکن تاحال ان سے نہ تو حکومت اور نہ ہی امریکی سفارت خانے کے کسی عہدیدار نے رابطہ کیا ہے اور وہ انصاف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اسی ہفتے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں احتجاج بھی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ایسی خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ ادریس خوں بہا لے کر امریکی سفارت کار کو معاف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن اس بابت پوچھے جانے پر انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس بارے میں کوئی بات تب ہو گی جب کوئی ان سے رابطہ کرے گا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سفارت کاروں کو سفارتی استثنیٰ تو حاصل ہوتا ہے لیکن کسی بھی جرم کی صورت میں قانونی کارروائی ضروری ہوتی ہے اور جب یہ معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو وہاں سفارت کار اس استنثیٰ کا دعویٰ کرتا ہے جس پر بہرحال عدالت کو ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔