سپریم کورٹ نے پاکستانی فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کو حکم دیا ہے کہ اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد پراسرار طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو نو فروری کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔
فوج کے صدر دفتر جی ایچ کیو اور دیگر فوجی اہداف پر2009ء میں ہونے والے حملوں کے شبے میں پاکستانی حکام نے گیارہ افراد کو گرفتار کر کے ان پر انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کیے تھے۔
لیکن انسداد دہشت گری کی خصوصی عدالتوں نے شواہد کی عدم دستیابی کے باعث انھیں تقریباً دو سال قبل رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ مگر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کیے جانے والے ان افراد کو فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا اور اس بارے میں خفیہ ایجنسوں کے وکیل نے سپریم کورٹ کو آگاہ بھی کر دیا تھا۔
حالیہ دنوں میں ان گیارہ افراد میں سے چار افراد کی لاشوں کی برآمدگی کے بعد ایک بار پھر عدالت عظمیٰ کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے اور اسی سلسلے میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کے روز فوج کے انٹیلی جنس اداروں آئی ایس آئی اور ایم آئی کو حکم دیا ہے کہ وہ زیر حراست سات افراد کو عدالت کے سامنے پیش کریں۔
متعلقہ فوجی اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے عدالت کو بتایا کہ سات افراد کو صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کے حوالے کر دیا گیا تھا، انھوں نے کہا کہ اب تک جن چار افراد کی لاشیں ملی ہیں وہ بیماری کے باعث ہلاک ہوئے۔
’’ان کی ہلاکت کیسے ہوئی ہے اس بارے میں ایک مکمل رپورٹ جمع کراؤں گا جو عدالت کو مطمئین کرے گی‘‘۔
لاپتہ ہونے والے تین مشتبہ افراد کی والدہ نے عدالت میں دائر درخواست میں یہ استدعا کر رکھی ہے کہ اس کے بیٹوں کو غیر قانونی طور پر انٹیلی جنس اداروں نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے اس لیے انھیں رہا کیا جائے۔
درخواست گزار کے وکیل طارق اسد نے مقدمے کی سماعت کے بعد کہا ’’وہ پیش ہوں گے تو ہمیں پتہ چلے گا، اس کے بعد قانون کی روشنی میں ان کی رہائی کے لیے اپنے دلائل دیں گے‘‘۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظمیں بھی فوجی اہداف پر حملوں کے شبے میں ملوث مشتبہ افراد سمیت دیگر سینکٹروں زیر حراست ملزمان کی برآمدگی اور ان پر مروجہ قوانین کے مطابق مقدمات چلانے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔