پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے کالعدم مذہبی تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد پر بغاوت کے مقدمے میں فرد جرم عائد کر دی ہے۔
ان کے خلاف 2009ء میں دیر کے علاقے تیمرگرہ میں ایک اجتماع سے خطاب میں ملک میں رائج جمہوریت اور جمہوری حکومت کو غیر اسلامی قرار دیتے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ہفتہ کو پشاور کی سنٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے صوفی محمد سمیت چھ افراد پر فرد جرم عائد کی لیکن ملزم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے تمام الزامات کو مسترد کیا۔
دیگر ملزمان میں صوفی محمد کے دو بیٹے اور تین دیگر ساتھی شامل ہیں۔
اس مقدمے کی آئندہ سماعت 21 فروری کو ہو گی۔
صوفی محمد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے سسر ہیں اور وہ ملک میں سخت اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
صوفی محمد پر ایک ایسے وقت فرد جرم عائد کی گئی ہے جب پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف سیاسی و عسکری قیادت فیصلہ کن کارروائیوں کا فیصلہ کر چکی ہے اور ملک بھر میں سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں اور ان کے حامیوں کے خلاف کارروائیاں تیزکر رکھی ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے سابق وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں انتہا پسندوں کے خلاف رائے عامہ ہموار ہو چکی ہے اور اب عدالتوں کی طرف سے بھی دہشت گردی کے مقدمات کے فیصلوں میں پہلے سے زیادہ تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
"ملک کی فضا بدل گئی ہے، عدالتیں بھی اب پہلے کی نسبت زیادہ پختہ ارادے کے ساتھ فیصلے کر رہی ہیں اور ملکی حالات بھی اس کے حق میں ہیں۔۔۔معاشرے کے تمام طبقوں میں وہ قوت نظر آ رہی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے راستہ ہموار کیا جائے تو موجودہ فیصلوں پر بھی موجودہ صورتحال کا لازمی طور پر اثر ہو گا۔"
گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد حکومت نے سزائے موت پانے والے دہشت گردوں کی پھانسیوں پر عملدرآمد پر عائد پابندی بھی ختم کر دی ہے جس کے بعد سے اب تک 22 مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔
حکومتی اور فوجی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے مکمل خاتمے تک پاکستان میں کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔