پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک کا آئین سب سے بالا دست ہے اور اس کے تحت عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
کراچی میں وکلاء کی ایک تقریب سے ہفتہ کو خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ کوئی ایسا قانون جو پاکستان کی دستور کی روح کے منافی ہو عدالت کو اس کی تشریح کا اختیار حاصل ہے۔
’’کئی ایسے قوانین جو بنیادی انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتے تھے انھیں سپریم کورٹ اور ملک کی ہائی کورٹس کالعدم قرار دیے چکی ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج عدلیہ کی آزادی کے ضامن ہیں کیوں کہ اُنھوں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت عظمٰی کی حکم عدولی پر ملک کے ایک چیف ایگزیکٹو کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب جمعہ کی شب صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماؤں اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں توہین عدالت اور اراکین پارلیمان کی دہری شہریت سے متعلق مجوزہ قوانین سمیت چار بل پارلیمان کے رواں اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس اجلاس میں وزیر قانون فاروق نائیک نے شرکاء کو ان مجوزہ قوانین سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔
توہین عدالت سے متعلق مجوزہ بل کے تحت وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء اور وزراء اعلیٰ کی جانب سے کیے گئے سرکاری فیصلوں پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔ جب کہ دہری شہریت سے متعلق قانون میں تجویز کیا گیا ہے کہ کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھنے والا پاکستانی پارلیمان کا رکن منتخب ہو سکے گا۔
وفاقی کابینہ کے رواں ہفتے ہونے والے اجلاس میں پہلے ہی ان دونوں مجوزہ قوانین کے مسودے کی منظوری دی جا چکی ہے اور اب قانون سازی کے لیے انھیں پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
قانونی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مجوزہ قانون سازی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت اور عدلیہ کے مابین تناؤ کا سبب بن سکتی ہے۔
حکمران پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نئی قانون سازی کا مقصد ہر گز عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں ہے۔
’’مجھے پورا یقین ہے کہ اس پر اتحادی ہمارے ساتھ ہیں ۔۔۔۔ تصادم والی تو کوئی بات نہیں ہے‘‘۔
اس سے قبل بھی پیپلز پارٹی کے اعلیٰ عہدے دار اس تاثر کی نفی کر چکے ہیں کہ مجوزہ قوانین کے ذریعے حکومت عدلیہ کے اختیارات محدود کرنا چاہتی ہے۔
حکومت نے توہین عدالت سے متعلق قانون میں ترمیم کا بل پارلیمان میں پیش کرنے کا فیصلہ ایسے وقت کیا ہے جب عدالت عظمٰی نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ 12 جولائی تک وضاحت کریں کہ کیا وہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمے کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھیں گے یا نہیں۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے سوئس حکام کو خط لکھنے سے مسلسل انکار پر ان کے خلاف توہین عدالت کا جرم ثابت ہونے پر عدالت عظمیٰ انھیں نا اہل قرار دے چکی ہے۔
کراچی میں وکلاء کی ایک تقریب سے ہفتہ کو خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ کوئی ایسا قانون جو پاکستان کی دستور کی روح کے منافی ہو عدالت کو اس کی تشریح کا اختیار حاصل ہے۔
’’کئی ایسے قوانین جو بنیادی انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتے تھے انھیں سپریم کورٹ اور ملک کی ہائی کورٹس کالعدم قرار دیے چکی ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج عدلیہ کی آزادی کے ضامن ہیں کیوں کہ اُنھوں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت عظمٰی کی حکم عدولی پر ملک کے ایک چیف ایگزیکٹو کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب جمعہ کی شب صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماؤں اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں توہین عدالت اور اراکین پارلیمان کی دہری شہریت سے متعلق مجوزہ قوانین سمیت چار بل پارلیمان کے رواں اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس اجلاس میں وزیر قانون فاروق نائیک نے شرکاء کو ان مجوزہ قوانین سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔
توہین عدالت سے متعلق مجوزہ بل کے تحت وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء اور وزراء اعلیٰ کی جانب سے کیے گئے سرکاری فیصلوں پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔ جب کہ دہری شہریت سے متعلق قانون میں تجویز کیا گیا ہے کہ کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھنے والا پاکستانی پارلیمان کا رکن منتخب ہو سکے گا۔
وفاقی کابینہ کے رواں ہفتے ہونے والے اجلاس میں پہلے ہی ان دونوں مجوزہ قوانین کے مسودے کی منظوری دی جا چکی ہے اور اب قانون سازی کے لیے انھیں پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
قانونی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مجوزہ قانون سازی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت اور عدلیہ کے مابین تناؤ کا سبب بن سکتی ہے۔
حکمران پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نئی قانون سازی کا مقصد ہر گز عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں ہے۔
’’مجھے پورا یقین ہے کہ اس پر اتحادی ہمارے ساتھ ہیں ۔۔۔۔ تصادم والی تو کوئی بات نہیں ہے‘‘۔
اس سے قبل بھی پیپلز پارٹی کے اعلیٰ عہدے دار اس تاثر کی نفی کر چکے ہیں کہ مجوزہ قوانین کے ذریعے حکومت عدلیہ کے اختیارات محدود کرنا چاہتی ہے۔
حکومت نے توہین عدالت سے متعلق قانون میں ترمیم کا بل پارلیمان میں پیش کرنے کا فیصلہ ایسے وقت کیا ہے جب عدالت عظمٰی نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ 12 جولائی تک وضاحت کریں کہ کیا وہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمے کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھیں گے یا نہیں۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے سوئس حکام کو خط لکھنے سے مسلسل انکار پر ان کے خلاف توہین عدالت کا جرم ثابت ہونے پر عدالت عظمیٰ انھیں نا اہل قرار دے چکی ہے۔