حکومتِ پاکستان نے عدالت عظمیٰ کو تحریری طور پر مطلع کیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئیٹرزلینڈ میں مبینہ بدعنوانی کے مقدمے کی بحالی کے معاملے پر تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل عرفان قادر کی جانب سے منگل کو عدالت میں جمع کرائے گئے وفاق کے جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم اہم اُمور پر اپنی کابینہ سے مشورہ کرنے کے پابند ہیں، جو خط لکھنے کے معاملے پر تاحال کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچی ہے۔
وفاقی حکومت کا یہ موقف ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس یا ’این آر او‘ سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے مقدمے میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے 25 جولائی یعنی بدھ تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے بدھ کو این آر او عمل درآمد مقدمے کی سماعت کرنی ہے، اور مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت کے موقف سے دونوں اداروں کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ میں اضافہ ہوگا۔
سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو ہونے والی سماعت کے بعد اپنے حکم نامے میں وزیر اعظم کو خط لکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ اگر عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد نا کیا گیا تو ان کے خلاف مناسب کارروائی ہو گی۔
لیکن وفاق نے اپنے تحریری جواب میں کہا ہے کہ این آر او کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے میں صدرِ مملکت کے خلاف مقدمہ دوبارہ کھلوانے کی ہدایت آئین سے متصادم ہے اس لیے یہ احکامات غیر قانونی ہیں۔
مزید برآں جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ توہین عدالت سے متعلق نئے قانون کے بعد وزیر اعظم کے خلاف عدلیہ کی حکم عدولی کے الزام میں کارروائی ممکن نہیں۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے وفاق کے جواب کو اعتراضات کے ساتھ واپس کر دیا۔
وزیر اعظم پرویز اشرف کی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ زیر غور آیا تھا، مگر وزیر قانون فاروق حمید نائک نے بتایا تھا کہ اُنھیں وزرا کو بریفنگ دینے کے لیے وقت درکار ہوگا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے موجودہ وزیر اعظم کے پیش رو یوسف رضا گیلانی کو صدر زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کا مقدمہ بحال کروانے کے لیے سوئس حکام کو خط نا لکھنے پر عدلیہ کی حکم عدولی کی پاداش میں پارلیمان کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔
ناقدین کا ماننا ہے کہ توہین عدالت کے نئے متنازع قانون کا مقصد راجہ پرویز اشرف کو تحفظ فراہم کرنا ہے کیوں کہ اس کے تحت وزیر اعظم، وفاقی و صوبائی وزرا اور وزرائے اعلیٰ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کیے گئے فیصلوں پر توہین عدالت سے متعلق عدلیہ کو جواب دہ نہیں ہوں گے۔
اٹارنی جنرل عرفان قادر کی جانب سے منگل کو عدالت میں جمع کرائے گئے وفاق کے جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم اہم اُمور پر اپنی کابینہ سے مشورہ کرنے کے پابند ہیں، جو خط لکھنے کے معاملے پر تاحال کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچی ہے۔
وفاقی حکومت کا یہ موقف ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس یا ’این آر او‘ سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے مقدمے میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے 25 جولائی یعنی بدھ تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے بدھ کو این آر او عمل درآمد مقدمے کی سماعت کرنی ہے، اور مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت کے موقف سے دونوں اداروں کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ میں اضافہ ہوگا۔
سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو ہونے والی سماعت کے بعد اپنے حکم نامے میں وزیر اعظم کو خط لکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ اگر عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد نا کیا گیا تو ان کے خلاف مناسب کارروائی ہو گی۔
لیکن وفاق نے اپنے تحریری جواب میں کہا ہے کہ این آر او کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے میں صدرِ مملکت کے خلاف مقدمہ دوبارہ کھلوانے کی ہدایت آئین سے متصادم ہے اس لیے یہ احکامات غیر قانونی ہیں۔
مزید برآں جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ توہین عدالت سے متعلق نئے قانون کے بعد وزیر اعظم کے خلاف عدلیہ کی حکم عدولی کے الزام میں کارروائی ممکن نہیں۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے وفاق کے جواب کو اعتراضات کے ساتھ واپس کر دیا۔
وزیر اعظم پرویز اشرف کی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ زیر غور آیا تھا، مگر وزیر قانون فاروق حمید نائک نے بتایا تھا کہ اُنھیں وزرا کو بریفنگ دینے کے لیے وقت درکار ہوگا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے موجودہ وزیر اعظم کے پیش رو یوسف رضا گیلانی کو صدر زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کا مقدمہ بحال کروانے کے لیے سوئس حکام کو خط نا لکھنے پر عدلیہ کی حکم عدولی کی پاداش میں پارلیمان کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔
ناقدین کا ماننا ہے کہ توہین عدالت کے نئے متنازع قانون کا مقصد راجہ پرویز اشرف کو تحفظ فراہم کرنا ہے کیوں کہ اس کے تحت وزیر اعظم، وفاقی و صوبائی وزرا اور وزرائے اعلیٰ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کیے گئے فیصلوں پر توہین عدالت سے متعلق عدلیہ کو جواب دہ نہیں ہوں گے۔