رسائی کے لنکس

اقوام متحدہ کے وفد کی آمد اور سپریم کورٹ کا انتباہ


پاکستان کی عدالت عظمٰی
پاکستان کی عدالت عظمٰی
بلوچستان میں ’’لاپتا افراد‘‘ کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ میں دائر مقدمے کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے متعلقہ حکام کو انتباہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے وفد کی پاکستان آمد سے قبل اپنے’’معاملات درست‘‘ کر لیں۔

جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے ماہرین پر مشتمل خصوصی وفد دس روزہ دورے پر اتوار کو اسلام آباد ہہنچا۔

پاکستان میں قیام کے دوران چار رکنی وفد کے ارکان چاروں صوبائی دارالحکومتوں کا دورہ کرکے وہاں سرکاری عہدے داروں، سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی کی تنظیموں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتوں میں ’’لاپتا افراد‘‘ کے بارے میں معلومات جمع کریں گے۔

سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان میں بدامنی سے متعلق مقدمے کی ہفتہ کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے متنبہ کیا تھا کہ اقوام متحدہ کا وفد ’’لاپتا افراد‘‘ کے بارے میں حالات کا جائزہ لینے کے لیے صوبے کا دورہ کرنے والا ہے اور اُن کی آمد سے قبل متعلقہ حکام کو اپنے معاملات درست کرلینے چاہیئیں۔

اُنھوں نے ایڈوکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی وفد کچھ کہے یا نا کہے لیکن مشاہدہ تو ضرور کرے گا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری (فائل)
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری (فائل)


’’اُس وقت کیا ہوگا جب اقوام متحدہ کا وفد صوبے کا دورہ کرکے لاپتا افراد کے رشتہ داروں کے بیانات قلمبد کرے گا؟‘‘

چیف جسٹس کا اشارہ بظاہر متاثرہ خاندانوں کے الزامات کی طرف تھا کہ جبری گمشدگیوں کی وارداتوں میں ریاستی ادارے ملوث ہیں۔

اقوام متحدہ کا مشن اُن اقدامات کا جائزہ بھی لے گا جو حکومت پاکستان نے جبری گمشدگیوں کے واقعات کے خلاف اب تک کیے ہیں اور اپنی حتمی رپورٹ انسانی حقوق سے متعلق عالمی تنظیم کے ادارے کو آئندہ سال پیش کرے گا۔

مقدمے کی سماعت کے بعد ہفتہ کو جاری کیے گئے عبوری فیصلے میں عدلیہ کے احکامات پر عمل درآمد میں وفاقی و صوبائی حکام کے عدم تعاون پر کڑی تنقید کرتےہوئے تین رُکنی بینچ نے کہا ہے کہ اب تک کوئی بھی لاپتا شخص بازیاب نہیں ہو سکا، جبکہ بلوچستان میں ’’معصوم شہریوں کو ہدف بنا کر قتل کیا جانا خاص طور پر مذہبی بنیادوں پراہلِ تشیع اور دوسرے فرقوں کے افراد‘‘ کو قتل کرنے کی وارداتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

مزید برآں کوئٹہ میں حالیہ دنوں میں ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج، دو اعلیٰ پولیس افسران سمیت قانون نافذ کرنے والےدیگر اداروں کے اہلکاروں کے قتل کے واقعات کے بعد بھی احتیاطی اقدامات نا کرنے پر عدلیہ نے صوبائی اور مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

’’صوبہ بلوچستان میں اغواء برائے تاوان ایک کاروبار بن چکا ہے اور یہ جرم صوبہ بھر میں ہر جگہ ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ پیشہ وارانہ لوگ جیسا کہ ڈاکٹرز اور اساتذہ بھی محفوظ نہ ہے۔ لوگ اپنے طور پر اپنی جیب سے تاوان کی رقم ادا کر کے واپس آتے ہیں۔ بچے اور بچیاں دونوں اغواء ہوتے ہیں جس کے خلاف کوئی مزاحمت نہ دکھائی گئی ہے۔‘‘

سپریم کورٹ کی تنقید کے جواب میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے سلامتی سے متعلق وفاقی اداروں اور بلوچستان کے چیف سیکرٹری کوعدالتی احکامات پر من وعن عملدرآمد اور عدالت کی ہرممکن معاونت کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ہفتہ کی رات دیر گئے جاری کردہ سرکاری بیان میں وزیر اعظم نے وفاقی حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’لاپتا افراد کی برآمدگی کے لیے حتی المقدور کوششیں کی جائیں گی‘‘۔

اس سے قبل وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ کا وفد حکومت پاکستان کی دعوت پردورہ کررہا ہے مگریہ نا تو حقائق کی تفتیش کرنے والا اور نہ ہی ایک تحقیقاتی مشن ہے۔

’’ورکنگ گروپ کا اصل منشور اُن لاپتہ افراد تک رسائی حاصل کرنے میں متاثرہ اہل خانہ اورمتعلقہ حکومتوں کے درمیان رابطوں کو فروغ دینا ہے جن کے مقدمات ورکنگ گروپ کے حوالے کیے گئے ہوں۔‘‘
XS
SM
MD
LG