اسلام آباد —
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ انصاف کی فراہمی کو بہتر بنا نے کے لیے ضروری ہے کہ ججوں اور عدلیہ سے منسلک افراد کی کارکردگی سے متعلق اہداف کا تعین کیا جائے اور اس ضمن میں تمام عدالتوں کی کارکردگی پر سالانہ رپورٹ بھی جاری کی جائے۔
ہفتہ کو عدلیہ کی پالیسی ساز قومی کمیٹی کے کوئٹہ میں ہونے والے اجلاس سے خطاب میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ آزاد اور مضبوط انصاف کی فراہمی کا نظام ہی معاشرے میں استحکام، قانون کی حکمرانی اور بہتر طرز حکمرانی کو یقینی بناتا ہے۔ ان کے بقول عدالتوں میں نئے مقدمات کا اندراج اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقدمات کے نمٹانے کے لیے ہم نے کافی پیش رفت کی تھی جس کے بعد اس کی شرح بہت اضافہ ہوا تھا مگر کچھ عرصے کے بعد ملک کے چند حصوں میں شرح بہت حد تک کم ہوگئی ہے جو کہ باعث تشویش ہے‘‘
سپریم کورٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 20 ہزار تصفیہ طلب مقدمات عدالت عظمیٰ میں زیر التواء ہیں جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں پاکستان کی عدالتوں میں ایسے مقدمات کی تعداد 14 لاکھ ہے۔
چیف جسٹس نے ملک میں جیلوں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ماتحت عدالتوں کے ججوں کو ہدایت کی کہ وہ ہر 15 دن بعد جیلوں کا دورہ کریں اور وہاں کی صورتحال اور اہلکاروں کے قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کو بہتر بنانے میں کردار ادا کریں۔
ہفتہ کو عدلیہ کی پالیسی ساز قومی کمیٹی کے کوئٹہ میں ہونے والے اجلاس سے خطاب میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ آزاد اور مضبوط انصاف کی فراہمی کا نظام ہی معاشرے میں استحکام، قانون کی حکمرانی اور بہتر طرز حکمرانی کو یقینی بناتا ہے۔ ان کے بقول عدالتوں میں نئے مقدمات کا اندراج اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقدمات کے نمٹانے کے لیے ہم نے کافی پیش رفت کی تھی جس کے بعد اس کی شرح بہت اضافہ ہوا تھا مگر کچھ عرصے کے بعد ملک کے چند حصوں میں شرح بہت حد تک کم ہوگئی ہے جو کہ باعث تشویش ہے‘‘
سپریم کورٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 20 ہزار تصفیہ طلب مقدمات عدالت عظمیٰ میں زیر التواء ہیں جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں پاکستان کی عدالتوں میں ایسے مقدمات کی تعداد 14 لاکھ ہے۔
چیف جسٹس نے ملک میں جیلوں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ماتحت عدالتوں کے ججوں کو ہدایت کی کہ وہ ہر 15 دن بعد جیلوں کا دورہ کریں اور وہاں کی صورتحال اور اہلکاروں کے قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کو بہتر بنانے میں کردار ادا کریں۔