اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے انٹیلیجنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کی طرف سے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق 16 سال پرانے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعہ کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں کہا کہ شواہد کی روشنی میں ثابت ہو گیا ہے کہ مرحوم سابق صدر غلام اسحاق خان، اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے 1990ء کے انتخابات میں سیاستدانوں میں بھاری رقوم تقسیم کی تھیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ یہ ایک خلاف آئین فعل تھا جس نے نا صرف انتخابات کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ یہ پاکستان اور قوم کی نظر میں فوج کی بدنامی کا باعث بھی بنا۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان تینوں افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جب کہ تحقیقات کر کے رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں سے بھی اس کا حساب لیا جائے۔
یہ مقدمہ 1996ء میں فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان نے دائر کیا تھا مگر مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار رہنے کے بعد رواں سال فروری میں سپریم کورٹ نے اس کی دوبارہ سماعت شروع کی جس کے اختتام پر جمعہ کو مختصر فیصلہ سنایا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عدالت کے فیصلے کو ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا۔
’’پہلی بار ہے پاکستان کی تاریخ میں کہ آرمی کے افسران کے خلاف ایک واضح، دو ٹوک فیصلہ آیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کر کے ہمارے ملک میں اداروں کے درمیان جو عدم توازن ہے اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اس سے قبل مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے استدعا کی تھی کہ یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کی ذمہ داری قومی احتساب بیورو ’نیب‘ یا کسی کمیشن کو سونپی جائے۔
اس مقدمے میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے ان سیاستدانوں کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست بھی اپنے بیان حلفی کے ساتھ عدالت عظمٰی میں پیش کی تھی جنہیں مالی رشوت دی گئی اور جس کا مقصد مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو 1990ء کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے سے روکنا تھا۔
اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد ’آئی جے آئی‘ تشکیل دیا گیا تھا۔
اسد درانی اور مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ انھوں نے اس وقت ملک کے صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف اسلم بیگ کے کہنے پر سیاستدانوں میں تقریباً 35 کروڑ روپے تقسیم کیے۔
یونس حبیب نے عدالت کو بتایا تھا کہ انھیں جنرل اسلم بیگ نے رقم کا بندوبست کرنے کے لیے کہا تھا اور ان کے لیے اس پر عمل درآمد کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
رقوم وصول کرنے والوں کی فہرست میں سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام بھی شامل ہے لیکن وہ اس الزام کی تردید کر چکے ہیں۔
عدالت نے یہ حکم بھی صادر کیا ہے کہ ایوان صدر اور فوج کے خفیہ اداروں نے اگر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کوئی شعبہ بنا رکھا ہے تو اسے فی الفور ختم کر دیا جائے۔
مزید برآں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ملک کا صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے اور آئین اسے کسی ایک سیاسی جماعت یا ایوان صدر میں سیاسی سر گرمیوں کی اجازت نہیں دیتا۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ عدلیہ کا یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت اس مقدمے پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے جس میں فاضل عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ بحیثیت صدر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زدراری بیک وقت دو عہدے نہیں رکھ سکتے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعہ کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں کہا کہ شواہد کی روشنی میں ثابت ہو گیا ہے کہ مرحوم سابق صدر غلام اسحاق خان، اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے 1990ء کے انتخابات میں سیاستدانوں میں بھاری رقوم تقسیم کی تھیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ یہ ایک خلاف آئین فعل تھا جس نے نا صرف انتخابات کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ یہ پاکستان اور قوم کی نظر میں فوج کی بدنامی کا باعث بھی بنا۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان تینوں افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جب کہ تحقیقات کر کے رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں سے بھی اس کا حساب لیا جائے۔
یہ مقدمہ 1996ء میں فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان نے دائر کیا تھا مگر مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار رہنے کے بعد رواں سال فروری میں سپریم کورٹ نے اس کی دوبارہ سماعت شروع کی جس کے اختتام پر جمعہ کو مختصر فیصلہ سنایا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عدالت کے فیصلے کو ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا۔
’’پہلی بار ہے پاکستان کی تاریخ میں کہ آرمی کے افسران کے خلاف ایک واضح، دو ٹوک فیصلہ آیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کر کے ہمارے ملک میں اداروں کے درمیان جو عدم توازن ہے اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اس سے قبل مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے استدعا کی تھی کہ یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کی ذمہ داری قومی احتساب بیورو ’نیب‘ یا کسی کمیشن کو سونپی جائے۔
اس مقدمے میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے ان سیاستدانوں کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست بھی اپنے بیان حلفی کے ساتھ عدالت عظمٰی میں پیش کی تھی جنہیں مالی رشوت دی گئی اور جس کا مقصد مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو 1990ء کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے سے روکنا تھا۔
اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد ’آئی جے آئی‘ تشکیل دیا گیا تھا۔
اسد درانی اور مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ انھوں نے اس وقت ملک کے صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف اسلم بیگ کے کہنے پر سیاستدانوں میں تقریباً 35 کروڑ روپے تقسیم کیے۔
یونس حبیب نے عدالت کو بتایا تھا کہ انھیں جنرل اسلم بیگ نے رقم کا بندوبست کرنے کے لیے کہا تھا اور ان کے لیے اس پر عمل درآمد کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
رقوم وصول کرنے والوں کی فہرست میں سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام بھی شامل ہے لیکن وہ اس الزام کی تردید کر چکے ہیں۔
عدالت نے یہ حکم بھی صادر کیا ہے کہ ایوان صدر اور فوج کے خفیہ اداروں نے اگر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کوئی شعبہ بنا رکھا ہے تو اسے فی الفور ختم کر دیا جائے۔
مزید برآں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ملک کا صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے اور آئین اسے کسی ایک سیاسی جماعت یا ایوان صدر میں سیاسی سر گرمیوں کی اجازت نہیں دیتا۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ عدلیہ کا یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت اس مقدمے پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے جس میں فاضل عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ بحیثیت صدر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زدراری بیک وقت دو عہدے نہیں رکھ سکتے۔