پاکستان کرکٹ بورڈ نے چار بلٹ پروف بسیں خریدی ہیں جنہیں ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی کوششوں کا حصہ بتایا جا رہا ہے۔
مارچ 2009ء میں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر اس وقت دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا جب وہ لاہور میں اپنے ہوٹل سے میچ کے لیے اسٹیڈیم جا رہی تھی۔
اس حملے میں مہمان ٹیم کے چھ کھلاڑی زخمی ہوئے جب کہ چھ پولیس اہلکار اور دو راہگیر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
یہ واقعہ پاکستان میں بین الاقوامی ٹیموں کے آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوا اور پاکستان کو دوسری ٹیموں کی میزبانی متحدہ عرب امارات کے متبادل میدانوں میں کرنا پڑی۔
کرکٹ سے متعلق ایک ویب سائٹ ای ایس پی این کرک انفو سے بات کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ہم بین الاقوامی ٹیموں کو مکمل سکیورٹی کی یقین دہانی کروانا چاہتے ہیں اور ان بلٹ پروف بسوں کا ان ٹیموں کو قائل کرنے میں اہم کردار ہوگا۔
کرکٹ کے معروف مبصر احتشام الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بلٹ پروف گاڑیوں کی بجائے پاکستان سپر لیگ کے میچز ملک میں کروا کر زیادہ بہتر طریقے سے بین الاقوامی ٹیموں کو قائل کیا جا سکتا ہے۔
"میرے خیال میں یہ پیسوں کا ضیاع ہے، ٹیموں کو سکیورٹی فراہم کرنا سکیورٹی اداروں کا کام ہوتا ہے جس طرح انھوں نے زمبابوے کی ٹیم کو سکیورٹی فراہم کی تھی۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان سپر لیگ کے لیے 20 میں سے دس بھی بین الاقوامی کھلاڑی اگر پاکستان آکر کھیلنے پر راضی ہو جاتے ہیں تو یہ پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے بہت فائدہ مند ہوگا اور بورڈ کی سوچ یہ ہونی چاہیے۔"
کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ رواں سال کے اوائل میں ہونے والے پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن کا فائنل پاکستان میں کروانے پر غور کیا گیا تھا جب کہ بورڈ کے عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ آئندہ آنے والے برسوں میں اس لیگ کے میچز ملک میں کروائے جائیں گے۔
2009ء کے بعد ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیم کا درجہ رکھنے والی زمبابوے کی ٹیم وہ واحد ٹیم تھی جس نے گزشتہ سال پاکستان کا دورہ کیا اور تمام میچز لاہور میں ہی کھیلے تھے۔