پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور سابق کپتان شاہد خان آفریدی کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا ہے اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا ہے۔ کھیل کی دنیا میں دن رات ہونے والی سرگرمیوں پرگہری نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق دہشت گردی کے علاوہ اگر کسی چیز نے ملک میں کرکٹ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے تو وہ ہے پی سی بی حکام کی غیر مستقل مزاجی، اس کا غیر متوازن رویہ، بعض کھلاڑیوں کا اثر رسوخ اوران کی ہٹ دھرمی ۔ اس سے قبل تمام معاملات پی سی بی خود ہی طے کرتا رہا تاہم اس مرتبہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ عوامی جذبات سے کھیلنے والے بے نقاب ہوجائیں گے۔
پاکستان میں ہر ادارے کی طرح پی سی بی کے بھی اپنے قوانین ہیں اور ہر کھلاڑی پر ان کی پاسداری کرنا لازم ہوتا ہے مگرمبصرین کہتے ہیں کہ اگست دو ہزار آٹھ میں اعجاز بٹ کے چیئرمین پی سی بی بننے کے بعد قانون تو بہت سے نظر آئے مگر ان پر عملدرآمد صفر رہا ۔ دہشت گردی نے جہاں کرکٹ سمیت تمام کھیلوں کو پاکستان کیلئے علاقہ ممنوعہ قرار دیا وہیں نئے نئے تنازعات کے باعث پاکستان کرکٹ آئے روز کی جگ ہنسائی کا سبب بن گئی ہے۔
اگر چہ اس دوران پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی کا عالمی کپ بھی اپنے نام کیا اور پاکستان کو ایک موقع ملا کہ وہ عالمی کرکٹ کو اپنی سر زمین پر ایک مرتبہ پھر بحال کر سکے مگر پی سی بی کی جانب سے کوئی خاطر خواہ پھرتی دیکھنے میں نہیں آئی ،اعجاز بٹ کے دور میں ہی گزشتہ سال دورہ آسٹریلیا کے دوران سات کھلاڑیوں کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سزائیں سنائی گئیں مگرسیاسی اثر رسوخ اور دیگر وجوہ پر ایک ، ایک کر کے سب کی معافی تلافی ہو گئی ۔
اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگست دو ہزار دس میں دورہ برطانیہ کے دوران تین کرکٹرز میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے ۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ اس معاملے پر بھی پی سی بی کا کردار انتہائی مایوس کن رہا ، پہلے تولب کشائی نہیں کی گئی اور جب چیئرمین پی سی بی بولے بھی تو حقائق کو ایک طرف رکھ دیا اور بغیر کسی ثبوت کے برطانوی ٹیم پر بھی میچ فکسنگ کے الزامات عائد کر دیئے ۔ دوسری جانب سے رد عمل سامنے آیا توانہیں فوراً معافی مانگنا پڑی۔ یہ واقعہ اور خود چیئرمین پوری دنیا میں سخت تنقید کا باعث بنے ۔
مبصرین کہتے ہیں کہ پی سی بی کی ناقص حکمت عملی کے باعث ادارہ اتنا کمزور ہو گیا کہ آئی سی سی (انٹرنیشنل کرکٹ کونسل) نے پی سی بی کی نگرانی کیلئے اپنی ٹیم تشکیل دے دی ۔ مگر اس کے باوجود بھی حکام کی آنکھیں بند ہی رہیں اور انہوں نے اپنی روش بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ نیوزی لینڈ سے سیریز میں فتح کے باوجود پی سی بی نے عالمی کپ میں ٹیم کی قیادت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ پھر شدید دباؤ پر شاہد آفریدی کوعالمی کپ میں کپتان برقرار رکھنا پڑا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آفریدی اور بورڈ کے اختلافات عالمی کپ سے پہلے ہی عروج پر تھے۔ عالمی کپ کے سیمی فائنل میں بھارت سے شکست بھی شاید انہی تنازعات کا شاخسانہ ہو۔
عالمی کپ کے بعد دورہ ویسٹ انڈیز بھی شاہد خان آفریدی اور اور پی سی بی انتظامیہ کے درمیان اختلافات سے بھرا پڑا ہے ۔ رپورٹس کے مطابق ویسٹ انڈ یز کے خلاف تیسرے ون ڈے کے بعد شاہد خان آفریدی سے کہا گیا کہ وہ قیادت چھوڑ دیں مگر وہ نہیں مانے اور وطن واپسی پر فقط ان کا اتنا کہنا کہ کوچ وقار یونس سمیت سب کو دوسروں کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ،جرم بن گیا ،دورہ آئر لینڈ کیلئے مصباح کو کپتان بنا دیا گیا اور آفریدی نے سیریز کھیلنے سے معذرت کر لی۔
دوسری جانب شاہد خان آفریدی نے اس معاملے کو مکمل سیاسی رخ دے دیا ہے ۔ ایک جانب تو وہ نواز شریف سے بات کر رہے ہیں تو دوسری جانب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے لندن میں کھانے پر ملاقات کر رہے ہیں ۔ اسی دوران متحدہ قومی موومنٹ کی بھی انہیں بھر پور سپورٹ حاصل ہے ۔ آفریدی کے کیرئیر پر نظر دوڑائی جائے تو وہ بھی ہمیشہ جارح موڈ میں ہی نظر آئے۔ دو ہزار پانچ میں انہوں نے فیصل آباد میں انگلینڈ کے خلاف پچ اکھاڑ دی ، فروری دو ہزار دس میں وہ بال ٹمپرنگ کرتے نظر آئے۔
بطور کپتان اور بلے باز زیادہ تر مشکل حالات میں بھی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ آفریدی کی پہچان بن چکی ہے ، عالمی کپ دو ہزار گیارہ کے سیمی فائنل میں انہیں پاور پلے کی اہمیت کا اندازہ ہی نہ ہو سکا۔ بقول سابق ٹیسٹ کپتان وسیم اکرم" ایک اچھے کپتان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے پاس موجود ٹیم میں کون سا کھلاڑی کس موقع کے لئے موضوع ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ شاہد آفریدی نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل ضرور کرتے ہیں مگر ان کا استعمال نہیں کر پاتے۔
آفریدی خود حال ہی میں پی سی بی کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس کے جواب میں اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس ادارے کی سرپرستی میں کھیل رہے ہیں اس کے سامنے پیش ہونے میں انہیں دقت پیش نہیں آنی چاہیے تھی، موجودہ صورتحال میں ان کا مطالبہ بورڈ سے صرف کاؤنٹی کرکٹ اور سری لنکن پریمئر لیگ کے لئے این او سی کے اجراء تک محدود نظر آ رہا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ اب انہیں پاکستان کرکٹ ٹیم میں کھیلنے میں کوئی دلچسپی نہیں اور یہی وجہ ہے انہوں موقف اختیار کیا ہے کہ وہ موجودہ بورڈ کے تحت کرکٹ نہیں کھیلیں گے۔
بہرحال آفریدی اور پی سی بی کا معاملہ مکمل طور پر سیاسی بن چکا ہے ،ایک جانب تو وزیر دفاع احمد مختار اور اعجاز بٹ انتہائی قریبی رشتے دار ہیں تو دوسری جانب شاہد خان آفریدی کے سر پر بھی مسلم لیگ ن ، ایم کیو ایم جیسی بڑی جماعتیں ہاتھ رکھنے کی یقین دہانی کروا چکی ہیں ۔ اگر چہ کرکٹ کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرنے کیلئے آئی سی سی کی تجویز سامنے آ گئی ہے ،مگر پی سی بی کے تو سر پرست اعلیٰ ہی صدر آصف علی زرداری ہیں یہی وجہ ہے کہ اس تجویز پر پی سی بی نے آئی سی سی سے وضاحت طلب کی ہے کیونکہ پاکستان میں صدر سے یہ عہدہ کون واپس لے گا۔
اب فیصلہ عدلیہ کو کرنا ہے کہ شاہد آفریدی درست ہیں یا پی سی بی۔ دونوں فریقین نے عدالتی فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے ۔کرکٹ کے شائقین کی تمام نظریں عدالتی کارروائی میں سامنے آنے والے انکشافات پر مرکوز ہیں لیکن بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ عدالت کے باہر ہی حل کر لیا جائے گا۔ تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا ۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ جب تک پاکستان کرکٹ سے سیاست کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، حالات جوں کے توں رہیں گے۔