اسلام آباد —
آٹھ ترقی پذیر مسلمان ملکوں کی تنظیم ’ڈی ایٹ‘ کا دو روزہ اجلاس پیر کو اسلام آباد میں منعقد ہورہا ہے جس میں 2008ء سے 2018ء تک رکن ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون میں پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز اجلاس کا افتتاح کریں گے اور اس میں پاکستان کے علاوہ مصر، ترکی، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش اور نائیجیریا سے ڈی ایٹ کمشنر اور تنظیم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر علی محمد موسوی شرکت کر رہے ہیں۔
اجلاس کے ایجنڈے میں رکن ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے بارے میں معاہدوں کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے اجلاس رکن ممالک میں تعاون کے فروغ سمیت اقتصادی و تجارتی روابط کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں لیکن ان میں ہونے والے فیصلوں اور معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے پران ملکوں کی حکومتوں کو خاص توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ کی کمیٹی برائے کامرس کے سربراہ سینیٹر غلام علی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں۔
’’ایسے اجلاس ہمیشہ سے بزنس اور ٹریڈ کے حوالے سے اچھی نوید سناتے ہیں اور یہ ہونے چاہیئں، لیکن تجارت کے حوالے سے یہ جو بھی سہولت دیتے ہیں یا پھر ان میں جو بھی وعدے ہوتے ہیں پھر ان پر عمل درآمد کے راستے اتنے سخت ہوتے ہیں کہ وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ رکن ممالک کے کاروباری اور تاجر حضرات کے درمیان روابط میں مشکلات کو دور کر کے آسانی پیدا کی جائے۔
ڈی ایٹ میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی لگ بھگ ایک ارب افراد پر مشتمل ہے اور ان کا تجارتی حجم دس کھرب ڈالر ہے اور تنظیم کی کوشش ہے کہ رکن ملکوں کے درمیان یہ حجم 2018ء تک 500 ارب ڈالر ہوجائے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز اجلاس کا افتتاح کریں گے اور اس میں پاکستان کے علاوہ مصر، ترکی، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش اور نائیجیریا سے ڈی ایٹ کمشنر اور تنظیم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر علی محمد موسوی شرکت کر رہے ہیں۔
اجلاس کے ایجنڈے میں رکن ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے بارے میں معاہدوں کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے اجلاس رکن ممالک میں تعاون کے فروغ سمیت اقتصادی و تجارتی روابط کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں لیکن ان میں ہونے والے فیصلوں اور معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے پران ملکوں کی حکومتوں کو خاص توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ کی کمیٹی برائے کامرس کے سربراہ سینیٹر غلام علی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں۔
’’ایسے اجلاس ہمیشہ سے بزنس اور ٹریڈ کے حوالے سے اچھی نوید سناتے ہیں اور یہ ہونے چاہیئں، لیکن تجارت کے حوالے سے یہ جو بھی سہولت دیتے ہیں یا پھر ان میں جو بھی وعدے ہوتے ہیں پھر ان پر عمل درآمد کے راستے اتنے سخت ہوتے ہیں کہ وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ رکن ممالک کے کاروباری اور تاجر حضرات کے درمیان روابط میں مشکلات کو دور کر کے آسانی پیدا کی جائے۔
ڈی ایٹ میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی لگ بھگ ایک ارب افراد پر مشتمل ہے اور ان کا تجارتی حجم دس کھرب ڈالر ہے اور تنظیم کی کوشش ہے کہ رکن ملکوں کے درمیان یہ حجم 2018ء تک 500 ارب ڈالر ہوجائے۔