رسائی کے لنکس

سزائے موت کے قیدیوں کے مستقبل کا فیصلہ جلد کرنے کی استدعا


پاکستان بھر کی جیلوں میں سات ہزار سے زائد سزائے موت کے قیدی ہیں، جن میں بیشتر کی اپیل کئی سالوں سے التوا کا شکار ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر کی جیلوں میں سات ہزار سے زائد سزائے موت کے قیدی ہیں اور ان میں سے کئی افراد کی اپیلیں پانچ اور دس سالوں سے ملک کی اعلی عدالتوں اور صدر مملکت کے دفتر میں پڑی ہیں جن پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

سینئیر قانون دان اور وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفراللہ خان نے سپریم کورٹ سے اپیل کر رکھی ہے تاکہ عدالت اس ’’تشویش ناک‘‘ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ان قیدیوں کے مستقبل کے بارے میں قانون و آئین کے تحت فیصلہ کرے۔

وائس آف امریکہ سے پیر کو گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 1972ء میں قانون میں ترمیم کر کے عمر قید کی مدت 14 سال سے بڑھا کر 25 سال کر دی گئی مگر دوسری جانب ان کے بقول مذہبی بنیاد پرستوں کے دباؤ کے پیش نظر اب تک سزائے موت کو ختم نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے قیدیوں کو انسانیت سوز صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

’’دس بارہ سالوں سے انسانوں کے ساتھ جو تماشا ہو رہا ہے یہ ظلم ہے۔ ان قیدیوں کے لیے جو کمرہ ہوتا ہے وہ انتہائی چھوٹا ہوتا ہے اور ایک گھنٹے کے لیے انہیں باہر نکالا جاتا ہے تو یہ اذیت ہے اگر سزا دینی ہے تو 25 سال عمر قید دے دیں۔‘‘

ظفراللہ خان نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے عدالت میں فراہم کیے گئے ریکارڈ کے مطابق تقریباً 1100 افراد کی سزائے موت کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں عدالت عظمیٰ، اور 4900 لاہور ہائی کورٹ میں جبکہ 532 قیدیوں کی رحم کی اپیلیں صدر پاکستان کے پاس زیر التواء ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی دیگر مہذب اقوام کی طرح پاکستان میں بھی موت کی سزا کو ختم کر دینا چاہیئے۔

’’ایک شخص جس کی آپ زندگی بنا نہیں سکے تو اس کی زندگی لینے کا آپ کا کوئی حق نہیں اور ایسا نہیں ہوا کہ سزائے موت کے ڈر سے قتل کے واقعات میں کمی ہوئی ہو۔‘‘

مذہبی سیاسی تنظیم جماعت اسلامی کے ترجمان فرید پراچہ سزائے موت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے معاشرے میں قتل و غارت گری میں اضافہ ہو گا۔ ان کے مطابق سزا کے خاتمے کا مطالبہ توہین رسالت کے مرتکب افراد کو بچانے کی سازش ہے۔

’’توہین رسالت کی جو سزا ہے اس کی وجہ سے اس مطالبے پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ سزائے موت ہی ختم ہو جائے تاکہ مسئلہ ہی حل ہو جائے۔‘‘

پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے موت کی سزا پر عمل درآمد غیر اعلانیہ طور پر معطل کر رکھا ہے تاہم گزشتہ سال نومبر میں سابق فوجی کو اپنے افسر کے قتل کے جرم میں پنجاب کی ایک جیل میں پھانسی دی گئی۔ انسانی حقوق کی تنظمیں سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں اور اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔
XS
SM
MD
LG