پاکستان میں فوج کے اہلکاروں کو لے جانے والی خصوصی ریل گاڑی کے حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد 17 تک پہنچ گئی ہے۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تلاش اور امداد کا کام بدستور جاری ہے۔
جمعرات کو یہ ریل گاڑی صوبہ پنجاب میں وزیرآباد کے قریب جامکے چٹھہ کے علاقے میں چھنانواں پل پر سے گزر رہی تھی کہ اچانک پل ٹوٹنے سے اس کی چار بوگیاں نہر میں جا گریں۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک کرنل ان کی اہلیہ اور دوبچوں کے علاقوں فوجی اہلکار اور ریل گاڑی کا ڈرائیور بھی شامل ہیں۔
حادثے کی اطلاع ملتے ہی سول انتظامیہ کے علاوہ فوج کے امدادی کارکنان جائے حادثہ پر پہنچے اور ابتدائی طور پر ٹرین میں پھنسے 80 مسافروں کو نکالا۔ ریل گاڑی پر دو سو سے زائد افراد سوار تھے۔
فوج کے غوطہ خوروں نے نہر میں بہہ جانے والوں کی تلاش بھی شروع کر دی تھی۔
نجی ٹی وی چینلز کے مطابق جائے حادثہ کے ایک کلومیٹر تک کے علاقے کو تقریباً سیل کر کے یہاں کارکنان اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ اس راستے سے گزرنے والی ریلوے ٹریفک کے لیے متبادل روٹ کا بندوبست کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق اس حادثے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور 72 گھنٹوں کے دوران اس کی ابتدائی رپورٹ تیار کر لی جائے گی۔
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں دہشت گردی یا کسی "اور ہاتھ" کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا لہذا حادثے کے تمام پہلوؤں سے تحقیق کی جا رہی ہے۔
جمعرات کو حادثے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی نماز جنازہ گوجرانوالہ چھاؤنی میں ادا کی گئی جس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی شریک ہوئے۔ آرمی چیف نے اسپتال میں داخل حادثے کے زخمیوں کی عیادت بھی کی۔
ابتدائی طور پر یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ تقریباً سو سال سے زائد عرصے پرانے پل کی حالت ناقص تھی جو اس حادثے کی وجہ ہوسکتی ہے۔
لیکن وفاقی وزیر نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کے ٹریکس اور پلوں کی جانچ پڑتال معمول کے مطابق کی جاتی ہے اور اس پل کا بھی ان کے بقول رواں سال جنوری میں جائزہ لیا گیا تھا جس کے مطابق یہ بالکل درست حالت میں تھا۔
حادثے کا شکار ہونے والی ٹرین سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل ہی اس پر سے "پاکستان ایکسپریس" گزری تھی۔