اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بیان کردہ تاریخ کے مطابق کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کرانے سے معذوری پر سیکرٹری دفاع آصف یاسین ملک پر چار نومبر کو توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آصف ملک نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ ملک کے 43 کنٹونمنٹ بورڈز میں نومبر کے مہینے میں انتخابات کروائے جائیں گے لیکن بعد ازاں انھوں نے بعض قانونی و انتظامی معاملات کی بنا پر اس سے معذوری ظاہر کی تھی۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے سیکرٹری دفاع کو عدالت میں غلط بیانی کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا تھا جس پر آصف یاسین ملک نے غیر مشروط معافی مانگی تھی۔
لیکن جمعہ کو مقدمے کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ سیکرٹری دفاع کو عدالت میں سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیے تھا۔ انھوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی فیصلوں کو ہوا میں اڑانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
سیکرٹری دفاع کے وکیل افتخار گیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدالتی کارروائی کے بارے میں کہا کہ انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل سے غلطی ہوئی جس پر انھوں نے غیر مشروط معافی مانگی۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کو یہ بھی بتایا گیا کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کروانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ سیکرٹری دفاع کی۔
’’ آئین کے تحت یہ وفاقی حکومت کا کام ہے جس میں کابینہ اور وزیراعظم شامل ہیں اور اتفاق سے وزارت دفاع کا چارج بھی وزیراعظم ہی کے پاس ہے، سیکرٹریز تو صرف احکامات کو لاگو کرانے کےلیے ہوتے ہیں۔‘‘
تاہم عدالت نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے چار نومبر کو آئندہ پیشی کے موقع پر سیکرٹری دفاع پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔
دوسری جانب ملک میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ ہنوز حل طلب ہے۔ خیبر پختونخواہ کے علاوہ تین صوبوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے کہ وہ یہ انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں۔
خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی طرف سے بلدیاتی نظام کے مسودہ قانون کی تیاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا لیکن صوبے کے ایڈووکیٹ جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ آئندہ چند روز میں یہ اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔
اس شمال مغربی صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کے چیئرمین عمران خان نے جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں اس قانون سازی میں تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے کہا۔
’’ہم جو انتخاب کروانے جا رہے ہیں اس میں گاؤں کی سطح پر اختیار منتقل کیا جائے گا اور دوسرا ہم پہلی مرتبہ بائیومیٹرک سسٹم لا رہے ہیں تاکہ کسی کو انتخابات پر شک نہ ہو۔‘‘
دریں اثناء الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں آئندہ ہفتے ایک اہم اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں چاروں صوبائی الیکشن کمشنر بھی شریک ہوں گے۔
آصف ملک نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ ملک کے 43 کنٹونمنٹ بورڈز میں نومبر کے مہینے میں انتخابات کروائے جائیں گے لیکن بعد ازاں انھوں نے بعض قانونی و انتظامی معاملات کی بنا پر اس سے معذوری ظاہر کی تھی۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے سیکرٹری دفاع کو عدالت میں غلط بیانی کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا تھا جس پر آصف یاسین ملک نے غیر مشروط معافی مانگی تھی۔
لیکن جمعہ کو مقدمے کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ سیکرٹری دفاع کو عدالت میں سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیے تھا۔ انھوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی فیصلوں کو ہوا میں اڑانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
سیکرٹری دفاع کے وکیل افتخار گیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدالتی کارروائی کے بارے میں کہا کہ انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل سے غلطی ہوئی جس پر انھوں نے غیر مشروط معافی مانگی۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کو یہ بھی بتایا گیا کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کروانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ سیکرٹری دفاع کی۔
’’ آئین کے تحت یہ وفاقی حکومت کا کام ہے جس میں کابینہ اور وزیراعظم شامل ہیں اور اتفاق سے وزارت دفاع کا چارج بھی وزیراعظم ہی کے پاس ہے، سیکرٹریز تو صرف احکامات کو لاگو کرانے کےلیے ہوتے ہیں۔‘‘
تاہم عدالت نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے چار نومبر کو آئندہ پیشی کے موقع پر سیکرٹری دفاع پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔
دوسری جانب ملک میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ ہنوز حل طلب ہے۔ خیبر پختونخواہ کے علاوہ تین صوبوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے کہ وہ یہ انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں۔
خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی طرف سے بلدیاتی نظام کے مسودہ قانون کی تیاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا لیکن صوبے کے ایڈووکیٹ جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ آئندہ چند روز میں یہ اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔
اس شمال مغربی صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کے چیئرمین عمران خان نے جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں اس قانون سازی میں تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے کہا۔
’’ہم جو انتخاب کروانے جا رہے ہیں اس میں گاؤں کی سطح پر اختیار منتقل کیا جائے گا اور دوسرا ہم پہلی مرتبہ بائیومیٹرک سسٹم لا رہے ہیں تاکہ کسی کو انتخابات پر شک نہ ہو۔‘‘
دریں اثناء الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں آئندہ ہفتے ایک اہم اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں چاروں صوبائی الیکشن کمشنر بھی شریک ہوں گے۔