رسائی کے لنکس

پاناما لیکس تحقیقاتی کمیشن سے متعلق نوک جھونک جاری


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حزب مخالف نے کمیشن کے ضابطہ کار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور پاناما لیکس کے معاملے کے علاوہ دیگر امور کو شامل کرنے سے کمیشن کی کارروائی بلا وجہ طوالت کا شکار ہو گی۔

وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے پاناما لیکس کے معاملے پر کمیشن کے قیام کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط تو لکھ دیا ہے لیکن کمیشن کی تشکیل پر پیش رفت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی وطن واپسی پر ہی ممکن ہوگی۔

جسٹس جمالی ہفتہ کو ترکی کے دورے پر روانہ ہوئے اور ان کی واپسی یکم مئی کو ہوگی۔

جسٹس ثاقب نثار نے ہفتہ کو قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی طور پر گفتگو میں بتایا کہ کمیشن کی تشکیل کا اختیار مستقل چیف جسٹس کے پاس ہے اور وہ ہی اس ضمن میں فیصلہ کریں گے۔

وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام بیرون ملک اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کے بارے میں رواں ماہ پاناما لیکس میں انکشاف ہوا تھا جس کے بعد سے حزب مخالف نے وزیراعظم اور حکومت پر اس معاملے کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن سے تحقیقات کروانے کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کیا۔

جمعہ کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ چیف جسٹس کو کمیشن کے قیام کے لیے خط لکھ رہے ہیں۔

ان کے خطاب کے بعد وزارت قانون کی طرف سے کمیشن کے ضابطہ کار سے متعلق بھی عدالت عظمیٰ کو تحریر بھیجی گئی جس میں نہ صرف پاناما لیکس میں ہونے والے انکشافات بلکہ کسی بھی ملک میں آف شور کمپنیاں رکھنے والی پاکستانی شخصیات، قرضے معاف کروانے والوں سمیت ایسے ہی دیگر غیر قانونی معاملات میں ملوث رہنے والوں کی تحقیقات کا بھی کہا گیا۔

حزب مخالف نے کمیشن کے ضابطہ کار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور پاناما لیکس کے معاملے کے علاوہ دیگر امور کو شامل کرنے سے کمیشن کی کارروائی بلا وجہ طوالت کا شکار ہو گی۔

حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ایک سینیئر رہنما اسد عمر نے ہفتہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ " جو اس میں چیزیں ڈالی ہیں کہ کن کن چیزوں کو (کمیشن نے) دیکھنا ہے جب سے پاکستان بنا ہے اور ہر قسم کی جو چوری ہو سکتی ہے اس کی تحقیقات کی جائیں گی تو اگلے سات ہزار سات میں تحقیقات مکمل ہو جائیں گے تو یہ وقت گزارنے والی باتیں ہیں۔"

ماہر قانون دان اور سابق جج طارق محمود بھی کمیشن کے مجوزہ ضابطہ کار سے مطمیئن دکھائی نہیں دیتے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا۔

"اگر آپ کو کمیشن بنانا تھا جو ان (حزب مخالف) کا مطالبہ تھا تو اس کو صرف اسی حد تک رکھتے تو بات ختم ہو جاتی۔ انھوں (حکومت) نے دوسری چیزیں ڈال کے خوامخواہ ایک اعتراض کا موقع دے دیا۔"

تاہم حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے پاناما لیکس کی تحقیقات کروانے کے حزب مخالف کے مطالبے کو تسلیم کیے جانے کے بعد حکومت پر تنقید کرنے والوں کو کمیشن کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔

وزیراعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ تحقیقاتی کمیشن کی سفارشات پر عمل کریں گے اور اگر وہ قصوروار قرار دیے گئے تو وہ اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG