پاکستان کی عسکری قیادت جمعہ کو خصوصی طور پر بلائے گئے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اراکین کو ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی موجودگی اور خفیہ امریکی آپریشن میں اُس کی ہلاکت کے بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کرے گی۔
پاکستانی فوج اور اس کے ماتحت خفیہ ادارے اس پورے واقعہ پر ہدف ِتنقید بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ خود یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ” کوتاہیوں“ کے باعث اُنھیں کاکول میں فوج کی مرکزی تربیت گاہ ’پی ایم اے‘ کے عقب میں دنیا کو مطلوب ترین القاعدہ کے سربراہ کے ٹھکانے اور نہ ہی اُسے ہلاک کرنے کے لیے دو مئی کو بھیجے گئے جدید ٹیکنالوجی سے لیس امریکی ہیلی کاپٹروں کی پاکستانی حدود میں موجودگی کا علم ہو سکا۔
فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بالواسطہ طور پر سیاسی قائدین کو مورد الزام ٹھراتے ہوئے اس موقف کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ ایبٹ آباد کے واقعہ کے بعد” معلومات کے فقدان اور ناکافی باضابطہ سرکاری ردعمل“ نے ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیوں اور عوامی بددلی میں اضافہ کیا۔
لیکن پاکستان میں اکثر ناقدین کے رائے میں طاقتور فوج کے ادارے اور ماضی کے فوجی اداروں سے خائف سیاسی حکومتیں فوج کے زیر اثر قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی سے متعلق اُمور پر اپنا موقف دینے میں شاذو نادر ہی پہل کرتیں ہیں۔
شاید یہی وہ خوف تھا کہ ایوان صدر سے باضابطہ بیان جاری کرنے کے بجائے صدر آصف علی زرداری نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایبٹ آباد واقعہ کے اگلے روز ایک مضمون لکھ کرپاکستان کا موقف پیش کرنے کی کوشش کی جبکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی بہت دیر تک پردہ سکرین سے غائب رہے۔
سیاسی حکومت کی اس روایتی کمزوری کافائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی حکام نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے پیش کیے گئے اپنے موقف میں ایبٹ آباد کے واقعہ کی ذمہ داری ایک بار پھر حکومت وقت پر ڈالنے کی کوشش کی۔
فوج اور آئی ایس آئی کے اعلیٰ حکام نے اپنی کوتاہیوں کا کھلا کر اعتراف تو کیا ہے لیکن اُن کا الزام ہے کہ واشنگٹن میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے مقرر کردہ پاکستانی سفیر حسین حقانی نے صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر 2009ء سے اب تک تقربیاََ سات ہزار امریکیوں کو ویزے جاری کیے ہیں۔
فوجی حکام کے بقول ویزوں کے اجراء کے لیے آئی ایس آئی کی طرف سے لازمی سکیورٹی کلیئرنس کے عمل کو صدر زرداری کے حکم نامے میں نظر انداز کردیا گیا اورمبینہ طور پر ان میں سینکڑوں ایسے امریکیوں کو بھی ویزے جاری کیے گئے جو درپردہ سی آئی اے کے اہلکار تھے۔
ذرائع ابلاغ کو دی گئی خصوصی بریفنگ میں عسکر ی حکام کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں سی آئی اے کے اہلکاروں کی پاکستان آمد کے بعد خفیہ اداروں کے لیے اُن کی نقل وحرکت پر نظر رکھنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔
لیکن سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹویٹر‘ پر رواں ہفتے جاری کیے گئے ایک بیان میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے کہا کہ ویزوں کے معاملے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جارہا ہے۔ ’’یہ بھی درست نہیں ہے کہ سات ہزار ویزے جاری کیے گئے۔ سرکاری ریکارڈ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس معاملے پر مبالغہ آرائی من گھڑت ہے کیونکہ ویزوں کا اجراء قواعد وضوابط کو مدنظر رکھ کر کیا گیا۔ ‘‘
مزید برآں حسین حقانی نے بلواسطہ طور پر اپنے ’ٹویٹر‘ پیغا م میں فوج کی طرف سے اس الزام کا جواب بھی دیا ہے کہ سی آئی اے کے اہلکاروں کو ویزو ں کا اجراء ایبٹ آباد جیسے آپریشن کا سبب بنا۔ ’’...سب کو تسلیم کرنا چاہیے کہ نہ تو اُسامہ بن لادن اور نہ ہی امریکی نیوی سیلز(کمانڈو فورس) پاکستان میں ویز لے کر داخل ہوئے تھے۔‘‘
سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بیرون ملک پاکستان کے سفارت خانوں سے غیر ملکیوں کو ویزوں کا اجراء ہمیشہ سے ایک باضابطہ نظام کے تحت کیا جاتا ہے۔
’’جہاں تک ویزوں کا تعلق ہے تو پہلے ان کے اجراء کے لیے ایک طریقہ کار تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رائے لی جاتی تھی اور بہر حال اس میں بہت کوتاہی ہوئی ہے اور اتنی جلد بازی میں ویزے دیئے گئے ہیں جس سے ملک کو کافی نقصان ہوا ہے ۔ میرے خیال میں اس معاملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں او ر جو بھی اس میں ملوث پایا گیا اُس کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیئے۔‘‘
لیکن پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان کا کہنا ہے کہ ویزوں کے اجراء کا معاملہ ریمنڈ ڈیوس اور ایبٹ آباد آپریشن کے بعد ہی کیوں اٹھایا جا رہا ہے۔ ’’یہ جو آج سات ہزار (ویزوں) کی بات ہورہی ہے جس وقت ایشو ہو رہے تھے اُس وقت کیوں اعتراض نہیں کیا۔‘‘
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کا سفر کرنے والے تمام امریکی شہری ویزہ کے حصول کے لیے طریقہ کار کے تحت مطلولبہ تفصیلی معلومات حکومت پاکستان کو فراہم کرتے ہیں۔ جو ان کا جائزہ لینے کے بعد مقامی قوائد و ضوابط کے مطابق ویزہ درخواستوں پر فیصلہ کرتے ہیں۔ ”ویزہ دینے کا حتمی اختیار پاکستان کے پاس ہے“۔
ایوان صدر کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان متنازعہ تفصیلات کا اجراء اصل کرداروں سے توجہ ہٹانے اور ایبٹ آباد میں ہونے والے آپریشن کی ذمہ داری سیاسی حکومت پر ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔
ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے فوراََ بعد جنرل کیانی کی سربراہی میں کور کمانڈر اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں امریکی فوجی اہلکاروں کی تعداد کو ناگزیر حد تک کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اُنھیں ایسے کسی فیصلے سے پاکستانی فوج یا پھر حکومت نے مطلع نہیں کیا ہے۔
پاکستان میں زیادہ سے زیادہ امریکیوں کی آمد پر اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا موقف رہا ہے کہ ان افراد کو کیر ی لوگر برمن بل کے تحت پاکستان کو آئندہ پانچ سال تک ساڑھے سات ارب ڈالر کی غیر فوجی امداد کی فراہمی اور اس کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں کی نگرانی کی ذمہ داریاں سونپی جارہی ہیں۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اراکین عسکری حکام سے ویزوں کے معاملے پر بھی سوالات اُٹھائیں گے کیونکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان ایوان کے حالیہ اجلاسوں میں اس ایشو پر حکومت بالخصوص واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔