پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے جمعہ کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسامہ بن لادن کی ملک میں موجودگی کا کھوج لگانے میں اُن کے ادارے کی ’’غفلت اور دانستہ ناکامی‘‘ ثابت ہوئی تو وہ ’’ہر قسم کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اس خصوصی اجلاس میں موجود مسلم لیگ (ق) کے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے بعد میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فوج اور فضائیہ کے اعلیٰ حکام بشمول آئی ایس آئی کے سربراہ نے ایبٹ واقعہ کی جو حقائق بیان کیے ہیں اُس پر دونوں ایوانوں کے اراکین عمومی طور پر مطمئن دیکھائی دیے۔ اُنھوں نے کہا کہ جنرل پاشا نے ایبٹ آباد واقعہ کے ہر پہلو پر کھل کر روشنی ڈالی ۔
ریاض فتیانہ نے آئی ایس آئی کے سربراہ کے الفاظ کو دہراتے ہوئے کہا کہ” اگر پارلیمنٹ اور حکومت یہ سمجھے کہ میں اپنے فرائض ادا نہیں کر پایا تو میں حاضر ہوں، میں مستعفی ہونے کو تیار ہوں اور میں عہدے سے چمٹے نہیں رہوں گا ،میں پارلیمنٹ اور حکومت کے احکامات کو بجا لاؤں گا۔“
مسلم لیگ (ق ) کے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ فوجی حکام نے اعتراف کیا کہ افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد پر ایسے ریڈار نصب نہیں کیے گئے ہیں جو دس ہزار فٹ سے نیچے پرواز کرنے والوں جہازوں یا ہیلی کاپٹروں کی پاکستانی فضائی حدود میں موجودگی کا پتہ لگا سکیں اور امریکی ہیلی کاپٹروں میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی وہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔
”میر ا خیال ہے پاکستان کی ائر فورس اور فوج کو جو تھوڑی بہت سبکی ہوئی ہے اُس کی بنیادی وجہ اُن کی بدنیتی نہیں ہے نااُن کی نااہلی ہے۔صر ف ٹیکنالوجی میں امریکہ کیونکہ بہت آگے ہے اور اُس نے ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی ہے جو کہ ہمارے پاس نہیں ہے۔“
وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے آئی ایس آئی کے جنرل احمد شجاع پاشا کی طرف سے اراکین پارلیمان کو دی جانے والی بریفنگ کی تفصیلات سے سرکاری ٹی وی کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ
جنرل پاشا کا کہنا تھا کہ وہ احتساب کے لیے تیار ہیں لیکن صرف آئی ایس آئی کو غفلت کا ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں کیوں کہ خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کی ذمہ داری صوبائی انتظامیہ بشمول پولیس پر بھی عائد ہوتی ہے۔
اُن کےبقول جنرل پاشا کا کہنا تھا کہ ’’یہ وقت الزام تراشی کرکے ذمہ داری سے فرار حاصل کرنے کا نہیں کیوں کہ پاکستان کے دشمن سیاسی و عسکری قیادت کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ چھ دہائیوں کے دوران آئی ایس آئی کی کارکردگی کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے جنرل پاشا نے بتایا کہ اس قومی ادارے نے ہمیشہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کی ہیں اور خصوصاً 2001ء کے بعد انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف اس کی فتوحات کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔
وزیر اطلاعات کے مطابق جنرل پاشا کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی نے پاکستان کے اتحادی ملکوں کی ایجنسیوں سے مل کر القاعدہ کی کمر توڑ دی تھی اور بن لادن کی ہلاکت سے قبل ہی آئی ایس آئی نے اس دہشت گرد تنظیم کی اعلیٰ قیادت کا خاتمہ کرکے اسامہ بن لادن کو حقیقتاً ایک غیر فعال رہنما میں تبدیل کر دیا تھا۔
’’پاکستان کو اندھیرے میں رکھ کر ایبٹ آباد میں کی گئی امریکی کارروائی‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے جنرل پاشا نے کہا کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا ایک مشترکہ ہدف تھا لیکن امریکہ نے یکطرفہ آپریشن کر کے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی۔
اُنھوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ امریکی انٹیلی جنس اہلکار پاکستان کی طرف سے فراہم کی گئی ابتدائی معلومات کااستعمال کرتے ہوئے اسامہ بن لادن تک پہنچے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کی بریفنگ سے قبل پاکستانی فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور پاک فضائیہ کے نائب سربراہ نے بھی اراکین پارلیمان کو ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کی کارروائی سے متعلق معاملات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
اس بارے میں وزیر اطلاعات نے بتایا کہ فضائیہ کے نائب سربراہ کا کہنا تھا کہ امریکی کمانڈوز ایسے ہیلی کاپٹروں میں سوار ہو کر ایبٹ آباد پہنچے جن کی پرواز کی نشاندہی ریڈار کے ذریعے ممکن نہیں تھی۔ ’’تاہم اُنھوں ذرائع ابلاغ میں کی گئی اُن قیاس آرائیوں کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا کہ ملک کا فضائی دفاع کا نظام غیر موثر ہے۔‘‘
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ ایبٹ آباد آپریشن کے آخری لمحات میں جب امریکی ہیلی کاپٹروں کی موجودگی ثابت ہو گئی تو اُس وقت کی معلومات کے مطابق مہلک ہتھیاروں سے لیس امریکی لڑاکا طیارے افغانستان کی فضائی حدود میں محو پرواز تھے تاکہ کسی قسم کی کارروائی کے جواب میں پاکستان پر حملہ کر سکیں۔
امریکی میڈیا میں بھی یہ اطلاعات آ چکی ہیں کہ خفیہ آپریشن میں حصہ لینے والے نیوی سیلز کے خلاف اگر پاکستانی افواج کارروائی کرتیں تو صدر براک اوباماکی ہدایت پر اس ممکنہ صورت حال میں جوابی فوجی کارروائی کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔