پاکستان میں حکام نے الزام لگایا ہےکہ ضلع لوئر دیر میں سرحد پار افغانستان سے شدت پسندوں نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ایک چوکی پر حملہ کیا جسے پسپا کر دیا گیا۔
افغان سرحد عبور کر کے آنے والے ایک سو سے زائد مفرور پاکستانی طالبان نے مسکینی درہ کے راستے یہ حملہ کیا مگر وہاں تعینات محافظوں نے ’’موثر جوابی کارروائی‘‘ کر کے اُنھیں واپس جانے پر مجبور کردیا۔ حکام نے جھڑپوں میں پانچ جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
اُدھر جمعہ کو باجوڑ میں بھی سلارزئی کے علاقے میں سرحد پار سے طالبان جنگجوؤں نے حملہ کیا اور حکومت کے حامی امن لشکر کے متعدد ارکان کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران مبینہ طور پر افغانستان کی جانب سے پاکستانی اہداف پر ایک درجن سے زائد حملے کیے جا چکے ہیں اور فوجی حکام کے بقول ان کارروائیوں میں سرحدی محافظوں سمیت مجموعی طور پر 100 سے زائد مارے گئے ہیں۔
پاکستان کا الزام ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن سے فرار ہونے والے کالعدم تحریک طالبان کے جنگجوؤں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے جہاں سے وہ یہ کارروائیاں کرتے ہیں مگر افغان حکام اس نقل وحرکت کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہے۔
ان حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کے دوران پاکستانی فوج کی طرف سے داغے جانے والے بعض گولے مبینہ طور پر افغان حدود میں بھی گرے اور افغانستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کی گولہ باری اس کے عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنی جس پر کابل حکومت اسلام آباد سے باضابطہ احتجاج بھی کر چکی ہے۔
رواں ماہ سعودی عرب میں اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے اجلاس کے موقع پر صدر حامد کرزئی کی پاکستانی ہم منصب صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا تھا۔
بات چیت میں افغان صدر نے متنبہ کیا تھا کہ سرحد پار گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے دو طرفہ تعلقات اور اففان عوام کے احساسات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جو پاکستان کے لیے بھی ’’اچھا نہیں ہوگا‘‘۔
افغان سرحد عبور کر کے آنے والے ایک سو سے زائد مفرور پاکستانی طالبان نے مسکینی درہ کے راستے یہ حملہ کیا مگر وہاں تعینات محافظوں نے ’’موثر جوابی کارروائی‘‘ کر کے اُنھیں واپس جانے پر مجبور کردیا۔ حکام نے جھڑپوں میں پانچ جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
اُدھر جمعہ کو باجوڑ میں بھی سلارزئی کے علاقے میں سرحد پار سے طالبان جنگجوؤں نے حملہ کیا اور حکومت کے حامی امن لشکر کے متعدد ارکان کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران مبینہ طور پر افغانستان کی جانب سے پاکستانی اہداف پر ایک درجن سے زائد حملے کیے جا چکے ہیں اور فوجی حکام کے بقول ان کارروائیوں میں سرحدی محافظوں سمیت مجموعی طور پر 100 سے زائد مارے گئے ہیں۔
پاکستان کا الزام ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن سے فرار ہونے والے کالعدم تحریک طالبان کے جنگجوؤں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے جہاں سے وہ یہ کارروائیاں کرتے ہیں مگر افغان حکام اس نقل وحرکت کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہے۔
ان حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کے دوران پاکستانی فوج کی طرف سے داغے جانے والے بعض گولے مبینہ طور پر افغان حدود میں بھی گرے اور افغانستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کی گولہ باری اس کے عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنی جس پر کابل حکومت اسلام آباد سے باضابطہ احتجاج بھی کر چکی ہے۔
رواں ماہ سعودی عرب میں اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے اجلاس کے موقع پر صدر حامد کرزئی کی پاکستانی ہم منصب صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا تھا۔
بات چیت میں افغان صدر نے متنبہ کیا تھا کہ سرحد پار گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے دو طرفہ تعلقات اور اففان عوام کے احساسات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جو پاکستان کے لیے بھی ’’اچھا نہیں ہوگا‘‘۔