پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر اور دہشت گردوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑا جائے گا۔
جنرل راحیل شریف نے پیر کو انسداد منشیات فورس ’اے این ایف‘ کے صدر دفتر کا دورہ کیا۔
فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ منشیات کی پیداوار اور فروخت میں ملوث عناصر، ملک کی قومی سلامتی کے لیے اتنا ہی خطرہ ہیں جتنا کہ دہشت گرد۔
انھوں نے کہا کہ منشیات سے حاصل ہونے والی رقم دہشت گردی میں بھی استعمال کی جا رہی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔
جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ منشیات فروشوں، ان کے مالی معاونت کاروں اور دہشت گردی میں ملوث عناصر کے درمیان موجودہ تعلق کو توڑا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ منشیات کے کاروبار میں ملوث ان عناصر کو پاکستان کی آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
فوج کے سربراہ کو منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کی جانے والی کارروائیوں سے متعلق تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔
تجزیہ کار بریگیڈئر (ریٹائرڈ) اسد منیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس خطے میں دہشت گرد اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سب سے بڑا حصہ منشیات کی اسمگلنگ یا اس سے جڑے کاروبار ہی سے حاصل کرتے ہیں۔
’’جتنی بھی دہشت گرد تنظیمیں ہیں، اُنھیں منشیات کی اسمگلنگ ہی سے حاصل ہونے والی آمدن کے ذریعے ’فنڈنگ‘ ملتی ہے۔ یہ (دہشت گرد) اُن (اسمگلروں) کو اپنے علاقے سے گزرنے کا راستہ دیتے ہیں جس کے عوض (اسمگلر) اُنھیں پیسے دیتے ہیں۔ ان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔‘‘
اسد منیر کا کہنا تھا کہ دہشت گرد اس ذریعے سے حاصل ہونے والی آمدن کو ہتھیار خریدنے اور اپنے جنگجوؤں کو تنخواہیں دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ منشیات کی اسمگلنگ ایک سنگین جرم ہے اور اس کے انسداد کے لیے علاقائی ملکوں کے درمیان قریبی تعاون کی ضرورت ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کا شمار خطے کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جو یورپی ملکوں کو منشیات کی منتقلی کے لیے ایک اہم گزرگاہ تصور کیے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں کاشت ہونے والی پوست کا 90 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے جسے بیرونی دنیا میں اسمگل کرنے کے لیے عموماً پاکستان اور ایران کے راستے استعمال کیے جاتے ہیں۔
پاکستان نے اپنے ہاں منشیات کی اسملنگ کی روک تھام کے لیے حالیہ برسوں میں کئی اقدامات کیے ہیں جس کی بدولت حکام کے بقول اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث بڑے گروہوں کو پکڑ کر ان کے قبضے سے قابل ذکر مقدار میں منشیات برآمد کر کے انھیں ضائع کیا جا چکا ہے۔