پاکستان میں سماعت سے محروم افراد میں کان کے اندرونی پردے یا کاکلیہ کی امپلاٹیشن بالکل مفت کی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ اردو سروس کے ایک راؤنڈ ٹیبل پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیپیٹل اسپتال اسلام آباد کے ای این ٹی سرجن ڈاکٹر جواد احمد نے بتایا کہ ان کا اسپتال پاکستان بھر کا وہ پہلا اور واحد سرکاری اسپتال ہے جس میں مستحق افراد کے لیے یہ انتہائی مہنگی سرجری بالکل مفت کی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کیپیٹل اسپتال میں آڈیٹری امپلانٹ کا شعبہ 2016 میں قائم ہوا تھا اور اس میں اب تک سماعت سے محروم تین سو مریضوں کا سرجری کے ذریعے علاج کیا جا چکا ہے، جن میں سے دو سو کا علاج بالکل مفت کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے یہ سہولت وفاقی ملازمین یا نادار افراد کے لیے فراہم کی جا رہی ہے جس کے لیے سرجن، ای این ٹی اسپیشلسٹ، سپیچ تھیرپسٹس اور آڈیولوجسٹس پر مشتمل ایک ٹیم مریض کا معائنہ اور ٹیسٹ کرتی ہے جس کے بعد اس کی سرجری کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر جواد نے بتایا کہ پیدائش کے بعد دو سال تک بچے کے دماغ میں اسپیچ سینٹر تیار ہو جاتا ہے۔ اگر بچہ سن نہیں رہا تو اس کا اسپیچ سنٹر تیار نہیں ہو گا، جس کے بعد وہ پوری زندگی نہ تو سن سکے گا اور نہ ہی بول سکے گا۔ اس لیے پہلے دو سال میں یہ تشخیص کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ آیا بچہ سن رہا ہے یا نہیں۔
بہرے پن کی اقسام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد نے بتایا کہ بہرے پن کے مریضوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک تو وہ جو پیدائشی طور پر سماعت سے محروم ہوتے ہیں۔ جنہوں نے کبھی بھی نہ تو سنا ہوتا ہے اور نہ ہی وہ بول سکتے ہیں۔ اگر ایک سے تین سال کی عمر تک یہ تشخیص ہو جائے کہ بچہ سن نہیں رہا اور اس کے سننے کا نظام کام نہیں کر رہا تو اس کے اندرونی کان میں سرجری کے ذریعے کاکلیہ یا وہ الیکٹرانک آلہ امپلانٹ کر دیا جاتا ہے جو کان کے اندرونی پردے سے آواز کو دماغ کے سمعی مرکز تک پہنچاتا ہے۔ اس کی مدد سے سماعت سے مستقل طور پر محروم افراد سننے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
دوسری قسم ان افراد کی ہے جو پیدائشی طور پر سن تو نہیں سکتے لیکن وہ والدین یا سپیچ تھیرپسٹس کی مدد سے آوازیں نکالنا سیکھ جاتے ہیں۔ انہیں عام طور پر پندرہ سال سے قبل سرجری کے ذریعے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
تیسرے گروپ میں وہ افراد آتے ہیں جو نارمل پیدا ہوتے ہیں اور ٹھیک طرح بول اور سن سکتے ہیں، لیکن کسی وجہ سے ان کی سماعت چلی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو بھی سرجری کے ذریعے دوبارہ سننے کے قابل بنایا جا سکتا ہے اور اس میں عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ کسی بھی عمر کے مریض کی یہ سر جری کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا وہ ہر عمر کے مریضوں کی سرجری کر چکے ہیں۔ لیکن سرجری کے لیے بہترین عمر تین سال ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ کے اسی پروگرام میں فضائیہ میڈیکل کالج اسلام آباد کے ای این ٹی ڈپارٹمنٹ کی پروفیسر اور ہیڈ اینڈ نیک سرجن ڈاکٹر طلعت نجیب نے بھی گفتگو کی ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں لاکھوں افراد کسی نہ کسی قسم کے بہرے پن کا شکار ہیں، جن کی کئی وجوہات میں موروثیت یا حمل کے دوران سخت قسم کی دوائیوں کا استعمال شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ درمیانے اور بیرونی کان میں اگر کوئی نقص ہو تو اس کا دوائیوں یا سرجری کے ذریعے علاج ہو سکتا ہے اورسماعت کے آلوں کی مدد سے سماعت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، لیکن اگر اندرونی کان میں کوئی نقص ہو تو اس کا علاج صرف کاکلیہ امپلانٹیشن کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر جواد نے بتایا کہ کیپیٹل اسپتال میں نہ صرف پاکستان بھر سے، بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی مریض سرجری کے لیے آتے ہیں، جن میں برطانیہ، کینڈا، سعودی عرن، بحرین، قطر، کویت، متحدہ عرب امارات اور افغانستان شامل ہیں۔