لائبریا سے پیر کی صبح ہی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی پہنچنے والے ایک شخص کو ممکنہ طور پر ایبولا وائرس سے متاثر ہونے کے شبے میں جناح اسپتال کے خصوصی وارڈ منتقل کر دیا گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور وفاقی وزارت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کے مشترکہ بیان کے مطابق 45 سالہ شخص پیر ہی کو تقریباً دو دن کی مصافت کے بعد لائبریا سے کراچی پہنچا۔ جہاں تیز بخار اور بعض دیگر علامات کی بنیاد پر فوری طور اُسے دیگر مسافروں سے الگ کر دیا گیا۔
جناح اسپتال کی ترجمان سیمی جمالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وفاقی حکومت اور عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق اسپتال میں ایبولا وائرس سے متاثرہ ممکنہ مریضوں کے علاج کے لیے ایک خصوصی وارڈ تو پہلے ہی سے تیار تھا لیکن جیسے ہی مشتبہ مریض کے بارے میں اسپتال انتظامیہ کو اطلاع دی گئی، فوری طور پر تمام ضروری انتظامات بھی کر لیے گئے۔
’’ ہمارا آئیسولیشن وارڈ تیار تھا لیکن لوگ ایبولا مریض (سے نمٹنے کے لیے) تیار نہیں تھے تو ہم نے بہت جلدی میں اپنے سارے طبی عملے کو جو اس طرح کے مریضوں کا علاج کرنے لیے تربیت یافتہ تھے ان کو بلا لیا۔ ہوائی اڈے سے اطلاع ملنے کے اگلے 45 منٹ میں ہم نے مریض کو اسپتال منتقل کر لیا۔ ہوائی اڈے سے حکام نے ہمیں بتایا کہ مریض کو 103 (فارن ہائیٹ) کا بخار ہے اور ہماری میڈیسن کی پروفیسر نے مریض کا طبی معائنہ کیا۔‘‘
ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ جب تک متاثرہ شخص کے تمام طبی تجزیے مکمل نہیں ہو جاتے اُسے الگ وارڈ میں ہی رکھا جائے گا۔
’’سوائے بخار کے متاثرہ شخص کو کوئی علامات نہیں تھیں، نہ ہی کہیں سے اُس کا خون (خارج) ہو رہا تھا۔ وہ ایک 45 سالہ مرد ہے جو لائبیریا میں جنریٹرز فروخت کرنے والی دوکان پر سیلزمین کے طور پر کام کرتا تھا۔‘‘
ایک خصوصی ٹیم جناح اسپتال میں موجود مریض کے خون کے نمونے لینے کے بعد اُن کا تجزیہ کروائے گی۔
واضح رہے کہ ایبولا وائرس کی وبا سے نمٹنے سے متعلق اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے عالمی ادارہ صحت کے ایک جائزہ مشن نےگزشتہ ہفتے ہی پاکستان کا دورہ مکمل کر لیا۔
اس دورے کا مقصد پاکستان میں حفاظتی اقدامات کا جائزہ لینے کے علاوہ مقامی اسپتالوں کو تکنیکی معاونت کی فراہمی تھی تاکہ ایبولا سے ممکنہ طور پر متاثرہ کسی شخص کو الگ وارڈ میں رکھا جا سکے۔
لائبریا مغربی افریقہ کے اُن تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں ایبولا کے باعث سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں دیگر دو ممالک میں سیرالیون اور گنی شامل ہیں۔
پاکستان میں حکام کہتے آئے ہیں کہ ایبولا وائرس کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ملک کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر مسافروں کی جانچ اور تجزیے کے لیے انتطامات کیے گئے ہیں۔
افریقی ممالک میں تعینات اقوام متحدہ کی امن فوج میں پاکستانی فوجی اہلکار بھی شامل ہیں جن کو ملک واپسی سے قبل طبی جانچ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان میں وفاقی محکمہ صحت اور عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ فیصل آباد میں ہلاک ہونے والے شخص کی موت کی وجہ ایبولا وائرس نہیں تھی۔
قومی ہیلتھ سروسز اور عالمی ادارہ صحت کے مشترکہ بیان کے مطابق چالیس سالہ ذوالفقار علی کی ہلاکت ڈینگی بخار سے ہوئی اور وہ ’ہیپاٹائٹس سی‘ کا بھی مریض تھا۔
ذوالفقار احمد مغربی افریقی ملک ٹوگو سے گزشتہ ماہ اپنے آبائی علاقے چنیوٹ پہنچا تھا، جسے بعد میں فیصل آباد کے اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔ ابتدا میں اس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اُس کی موت کی وجہ ایبولا وائرس ہو سکتی ہے۔
پاکستانی عہدیداروں نے ایک ٹیم ذوالفقار علی کے گاؤں بھی بجھوائی تاکہ اُن افراد کی بھی جانچ کی جا سکے جن سے ذوالفقار کا میل میلاپ رہا۔