پاکستان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا نے حالیہ دنوں میں واشنگٹن کے اپنے دورے میں عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہوں اور عالمی اقتصادی رہنماوں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں معیشت کی بحالی کے لئے پاکستان کی کوششوں سے اگاہ کیا۔
اپنے دورے کے اختتام پر اتوار کی شام میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقتصادی بحالی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اور حکومت آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر مکمل عملدرآمد کا عزم رکھتی ہے۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اور مالیاتی خسارہ کم ہوا ہے۔ ٹیکس نیٹ میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 19 لاکھ سے بڑھ کر 28 لاکھ ہو گئی ہے۔ درآمدات میں گزشتہ برس 32 فیصد کمی ہوئی جس میں موجودہ مالی سال میں مزید 30 سے 40 فی صد کمی کی توقع ہے۔ جب کہ برآمدات میں پانچ سال کے بعد اب اضافہ شروع ہو گیا ہے جس سے مالی خسارہ 4.1 فی صد سے گھٹ کر 1.7 فی صد رہ گیا ہے۔ اسی طرح سرکلر ڈیڈ میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔
انہوں ںے مہنگائی اور بیروزگاری کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ مصنوعی شرح تبادلہ کی وجہ سے بھاری قرضے لیے گئے جس کے اثرات بعد میں ظاہر ہوئے۔
حفیظ شیخ نے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کئی پہلوؤں پر کام ہو رہا ہے۔
معروف اقتصادی ماہر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ اعداد و شمار کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی بحران کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ ایک سال کے عرصے میں معیشت میں استحکام لانے کے دعوے غلط ہیں۔ کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی کی وجہ صنعتوں کے خام مال کی درآمد میں کمی ہے جس سے صنعتی پیداوار کم ہو گئی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ٹیکس وصولی بھی کم ہو جائے گی۔ انہوں ںے کہا کہ حکومتی دعوؤں کے برعکس معیشت ٹھیک نہیں بلکہ مزید خراب ہو رہی ہے۔