رسائی کے لنکس

پاکستان کی معاشی حالت مزید خراب ہو سکتی ہے: ورلڈ بینک


رواں سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح خطے کے تمام ممالک میں سب سے بلند رہنے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ (فائل فوٹو)
رواں سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح خطے کے تمام ممالک میں سب سے بلند رہنے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ (فائل فوٹو)

عالمی بینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں پاکستان کی معاشی حالت مزید خراب ہو سکتی ہے۔

ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے موجودہ معاشی عدم استحکام کی بنیادی وجہ بلند تجارتی خسارہ اور زرمبادلہ کے کم ذخائر ہیں۔

رپورٹ میں اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ قلیل مدت میں ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار رہے گی۔ جب کہ درمیانی مدت کے لیے ملکی ترقی کا انحصار ان ضروری اصلاحات پر ہے جس کے ذریعے پائیدار ترقی اور مسابقت کی فضا پیدا کی جا سکے۔

رپورٹ کے مطابق ملک سے غربت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششیں معاشی سلجھاؤ کے دوران محدود رہنے کی توقع ہے۔

ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ جون 2019 تک پاکستان کا تجارتی خسارہ کم ہو کر 13.5 ارب ڈالرز پر آگیا تھا جو ملکی آمدنی کا تقریبا 4.3 فی صد ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں تجارتی خسارہ تقریباً 6 ارب ڈالرز تک کم ہوا ہے۔

خسارے میں کمی کی بنیادی وجہ درآمدات میں 14.9 فی صد کمی بتائی جارہی ہے۔ دوسری جانب برآمدات میں اضافے سے متعلق فی الحال کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ تجارتی خسارہ مالی سال 2020 کے دوران قومی اقتصادی پیداوار کے لحاظ سے 2.2 فی صد مزید کم ہو جائے گا جو 2021 میں 2.6 فی صد تک کم ہو سکتا ہے۔

عالمی بینک کے مطابق اس کمی کی وجہ شرح تبادلے میں لچک کی وجہ سے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں تھوڑا سا اضافہ بتائی جا رہی ہے۔

ورلڈ بینک کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے لکویڈیٹی ملنے کے باعث مالی آمدنی میں اضافہ دیکھا گیا۔ البتہ سال 2019 کے دوران خراب مالی کارکردگی کی اہم وجہ ریونیو کلیکشن میں کمی اور سود کی بلند شرح کی ادائیگیوں کو قرار دیا گیا ہے۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے ریونیو کلیکشن میں 6.3 فی صد کمی دیکھی گئی ہے۔ ان بنیادوں پر ملک کا مجموعی مالی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا تقریبا 8.8 فی صد بنتا ہے۔ یہ خسارہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 2.4 فی صد زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق ملک میں ٹیکس ریونیو جمود کا شکار رہا ہے جب کہ نان ٹیکس ریونیو میں بھی تقریبا 44 فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر مرکزی بینک کے منافع میں کمی ریکارڈ کی گئی جس کے باعث حکومت کو کم پیسے منتقل ہوئے۔

ریونیو کلیکشن میں کمی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں عدم استحکام کے باعث پاکستان کا قرضہ جون 2019 کے اختتام پر مجموعی قومی پیداوار کے 86.5 فی صد تک ریکارڈ کیا گیا۔ یہ قرض گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 73 فی صد تھا جب کہ سال 2021 میں پاکستان کا قرض کم ہو کر قومی اقتصادی پیداوار کے 80.8 فی صد تک آنے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔

عالمی بینک کے مطابق رواں مالی سال کے دوران ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح 2.4 فی صد تک رہنے کی توقع ہے اور حکومت کی جانب سے اصلاحات کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہی اگلے مالی سال میں اقتصادی ترقی کی رفتار میں کچھ بہتری کی توقع کی جا رہی ہے۔

امکان ہے کہ یہ شرح اضافے کے بعد 3 فی صد تک پہنچ جائے گی۔ لیکن اس کا انحصار عالمی منڈیوں میں استحکام، تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی، سیاسی استحکام اور امن و امان کی بہتر صورتِ حال پر بھی منحصر ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح خطے کے دیگر ممالک میں افغانستان اور سری لنکا کے بعد سب سے کم رہنے کی توقع ہے۔ رواں سال بنگلہ دیش کی ترقی کی شرح 8.1 فی صد، نیپال کی اقتصادی ترقی کی شرح 7.1 اور بھارت کی معیشت 6 فی صد کی رفتار سے ترقی کرنے کا امکان ہے۔

مہنگائی سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال مہنگائی کی شرح 13 فی صد رہنے کی توقع ہے جس میں آئندہ مالی سال سے مرحلہ وار کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔

رواں سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح خطے کے تمام ممالک میں سب سے بلند رہنے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔

عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2001 سے ملک میں جاری غربت میں کمی کی بلاتعطل کوششوں میں جمود آ سکتا ہے کیوں کہ اس وقت حکومت کی توجہ معاشی بحران سے نمٹنے پر ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار دھیمی جب کہ مہنگائی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

ملک میں انتہائی غربت کی شرح 3.1 فی صد رہنے کی توقع ہے جب کہ غربت کی شرح میں معمولی کمی کی توقع بھی ظاہر کی جا رہی ہے۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کی معاشی پالیسیوں نے ملکی قرضوں کے حجم میں اضافہ کیا ہے اور ملکی معیشت کو پہنچنے والے دھچکوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت بھی محدود ہوئی ہے۔

ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ عالمی منڈیوں میں عدم استحکام اور دنیا بھر میں جاری تجارتی تناؤ پاکستان کی معیشت کے لیے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں جب کہ ملک کے اندر مختلف معاشی سیکٹرز میں اصلاحاتی پروگرام کا نفاذ بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔

عالمی بینک کی مذکورہ رپورٹ سے متعلق معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کوششیں تو کر رہی ہے لیکن اس میں زیادہ وقت لگ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت معاشی بہتری کے لیے اپنے اہداف کو حاصل نہ کر پائے۔

ماہر معاشیات سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ حکومت کی سمت تو درست ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاشی اصلاحات کے لیے مطلوبہ رفتار دکھائی نہیں دیتی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سمیع اللہ طارق نے کہا کہ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ پی آئی اے، اسٹیل ملز سمیت دیگر بڑے اداروں کی کارکردگی بہتر اور ان کا خسارہ کم ہو۔ لیکن اس کے لیے کی جانے والی اصلاحات کی رفتار دھیمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح بجٹ خسارے میں کمی کے لیے حکومت ریونیو بڑھانے اور اخراجات کنٹرول کرنے کی کوششیں کر رہی ہے لیکن ان کوششوں کو مزید تقویت دینے کی ضرورت ہے۔

سمیع اللہ طارق کے مطابق حکومت کو نجکاری پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی کے اثرات جنوبی ایشیائی ممالک کی معیشتوں پر بھی نمایاں نظر آرہے ہیں۔ اب جنوبی ایشیا کا خطہ دنیا میں تیز رفتار ترقی کرنے والا خطہ نہیں رہا۔ اس ترقی کی رفتار میں کمی کا عکس ان ممالک کی اسٹاک مارکیٹس معاشی منڈیوں میں جاری تناؤ سے لگایا جا سکتا ہے۔

رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پاکستان سمیت تمام ممالک میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ غیر مناسب بارشیں اور عالمی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی قیمتیں ہیں۔

XS
SM
MD
LG