یورپ میں اقتصادی تنزلی کے عالمی سطح پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت کو داخلی معیشت کے فروغ پر توجہ بڑھانے اور بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
ورلڈ بینک کی عالمی معیشت کے مستقبل سے متعلق تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں پاکستانی معیشت کے بعض شعبوں میں حالیہ مہینوں کے دوران بہتر کارکردگی کا اعتراف تو کیا گیا ہے مگر ساتھ ہی یہ انتباہ بھی کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کی اس دوسری بڑی معیشت کی ترقی کی شرح خطے میں سب سے کم رہنے کی توقع ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت کو درپیش بنیادی مسائل میں امن و امان کی خراب صورتحال، سیاسی عدم استحکام، صنعتی شعبے سے متعلق بنیادی ڈھانچے میں کمزوریاں اور اقتصادی حکمت عملی کا غیر موثر نفاذ شامل ہیں۔
حکومت سندھ کے سابق مشیر اور اقتصادی ماہر قیصر بنگالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی معیشت کا بیشتر انحصار زراعت اور صنعتی شعبے خصوصاً ٹیکسٹائل پر ہے لیکن کمزور بنیادی ڈھانچے کے باعث ان کی پیداوری صلاحیت میں کمی ہو گئی ہے۔
’’ایک بڑا واضح فرق توانائی کے شعبے میں ہے، بجلی نہیں ہو گی تو صنعت کیسے چلے گی اور زراعت میں بھی ٹیوب ویل نہیں چلیں گے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ درآمدات اور برآمدات کے حجم میں فرق اور بجٹ خسارے کی موجودگی میں معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی۔
قیصر بنگالی کے بقول یورپ میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو کم از کم کچھ عرصہ کے لیے داخلی معیشت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ’’اس طرح ہماری معیشت کا برآمدات پر انحصار کم ہو جائے گا۔‘‘
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے عہدے دار اور غیر جانبدار مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران پاکستان کی معیشت اندرونی اور بیرونی دونوں ہی مسائل کے پیش نظر شدید دباؤ کا شکار رہی ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعرات کو قومی اسمبلی میں مالی سال 12-2011ء کی پہلی شش ماہی کے دوران معاشی اشاروں کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی تنزلی کے علاوہ ملک میں مسلسل دوسرے سال سیلاب اور امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے لیکن اس کے باوجود یہ ’’مستحکم‘‘ ہے۔
’’موجودہ حالات کے تناظر میں معاشی کارکردگی کے عام معیارات کے تحت پاکستان کی معیشت نے استحکام کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
وزیر اعظم گیلانی نے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ اُن کی حکومت کی بہتر اقتصادی حکمت عملی، خصوصاً قرضوں کے حصول پر کنٹرول کے باعث گزشتہ ماہ افراطِ زر کی شرح دو سالوں کے دوران پہلی مرتبہ 10 فیصد سے بھی کم ہو گئی۔
اُن کے بقول پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے ٹیکس نظام کو وسعت دینے پر خصوصی توجہ دی ہے جس کی وجہ سے چھ ماہ کے دوران وصول کیے گئے ٹیکس کا مجموعی حجم گزشتہ سال اس عرصے کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ ہے اور حکومت پُر امید ہے کہ وہ رواں سال کے لیے طے کردہ 1,952 ارب روپے کا مجوزہ ہدف حاصل کر لے گی۔
’’ہم نے 2010ء سے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لیا، 2011ء میں (کوئیلیشن سپورٹ فنڈ) سی ایس ایف کے تحت اخراجات کی ادائیگی نہیں ہوئی، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک کی مدد نارمل رہی ہے، (اور) اس کے باوجود ہمارا بیلنس آف پیمنٹس مستحکم ہے جبکہ ہم تقریباً 1.4 ارب ڈالر آئی ایم ایف کا قرض سال کے دوران ادا کریں گے۔‘‘
توانائی کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ حکومت بجلی کی رسد اور کھپت میں فرق کم کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔ ’’میں نے نشنل گرڈ میں 2,000 میگا واٹ کے اضافے کا وعدہ کیا تھا جب کہ 2008ء سے مجموعی اب تک 3,000 سے زائد اضافہ کیا جا کا ہے اگلے چار سالوں میں اس نظام میں 5,000 میگا واٹ ہائیڈل بجلی کا اضافہ کیا جائے گا۔‘‘
ان دنوں پاکستان کو اوسطاً 5,000 میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ملک کے اکثر حصوں میں روزانہ کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔
لیکن وزیر اعظم گیلانی نے اپنی تقریر میں زور دے کر کہا کہ معیشت کی ترقی کے لیے ملک میں جمہوری استحکام نا گزیر ہے۔